دورِ خلافت میں جس کو خلیفہ بنایا جاتا وہ مکمل طور پر اللہ کا غلام بن جاتا۔ رات کو وہ اللہ کو جوابدہ ہوتا اور دن کو لوگوں کو جوابدہ ہوتا۔ خلیفہ کا انتخاب آزادانہ کیا جاتا ، بغیر کسی ڈر کے۔عوام کھلے عام خلیفہ سے سوال کرتے۔ وہ بیت المال کی ایک ایک پائی کا جوابدہ ہوتا۔غلطی کی صورت میں عام بندہ بھی اسے کٹہرے تک لے جا سکتا۔وہ عوام کے درمیان ہی رہتا بغیر کسیپروٹوکول کے۔ یہ تھا سنہری دورِ خلافت!لیکن!!! بادشاہت میں جب تاج پوشی ہوتی تو خدا کی غلامی نامی کلامی رہ جاتی۔عام انسان کا بادشاہ سے سوال کا جواب سزا کی صورت میں آتا۔ملکی خزانے میں کیا اور کیسے آ اور جا رہا ہے اس کا سوال کرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہوتی۔عوام کے درمیان سے گزرتا تو راستے صاف کر دیے جاتے اور آگے پیچھے شاہی دستے ہوتے گویا " وہ انہی سے ڈر رہا ہے جن پر وہ حکمران بنایا گیا ہے۔"آج کے دور میں بھی اسے ویسی ہی بادشاہت نظر آئی۔ اب تاریخ میں ایک اور داستاں رقم ہونے جا رہی تھی!! ( عمارہ ایاز ،مری )