2002 میں ریلیف کیمپوں کا دورہ کرتے ہوئے اور زندہ بچ جانے والوں سے بات کرتے ہوئے اور بعد میں گینگ ریپ سے بچ جانے والوں کی کہانیو ں کو انہوں نے دستاویزی شکل دی ہے۔ اس میں ایسی لرزہ خیز داستانیں ہیں کہ روح تڑپ اٹھتی ہے۔ ضلع پنچ محل کے کلول کیمپ میں پناہ گزین ایک بارہ سالہ لڑکی کے پوشیدہ اعضاء کو مسخ کردیا گیا تھا۔ فسادیوں نے اجتماعی عصمت دری کے بعد اس کے مسخ شدہ نازک حصوں میںزعفرانی جھنڈے کا ڈنڈہ ڈال دیا تھا۔ زعفرانی ہندو دھرم کا مقدس رنگ ہے۔ اس ڈنڈے کے دوسرے سرے پر تکونی سناتن دھرم کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ 28 فروری 2002 کو جب ان کے گاؤں لکھمیڑا پر حملہ ہوا تو گائوں کے تین مسلم خاندان اپنے رشتہ داروں کے ہاں پانڈو گائوں کی طرف چل پڑے۔ راستے میں تقریباً 150 لوگوں کے ہجوم نے ان پر حملہ کردیا اور انہیں مارنا شروع کیا۔ کچھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے، 10 افراد کو ہجوم نے گھیر لیا۔ خواتین کو برہنہ کرکے دوڑ لگانے کیلئے کہا گیا۔ بے بس برہنہ عورتیں اوران کے ساتھ بچے بھاگ رہے تھے اور ایک ہجوم ڈھول بتاشوں کے ساتھ قہقہے لگاتا ہوا ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ لاتعداد غنڈوں نے ہر لڑکی، عورت کی عصمت دری کی۔ جب وہ اپنا مقدس فریضہ ادا کر چکے اور عورتوں کے نازک حصوںمیں اپنا جھنڈا لگا چکے تو ان میں سے چند نے پیٹرول اور لکڑیاں لا کر عورتوں کو جلا کر مار ڈالا۔جس بچی نے یہ کہانی شبنم کو سنائی، وہ کہہ رہ تھی کہ وہ ان مردوں کو پہنچاتی ہے۔ وہ پاس کے دیہات جنترال سے آئے تھے۔مگر اس کے باوجود کوئی گرفتار نہیں ہوا۔ کلول تعلقہ میں ہونے والی 65 اموات میں سے 42 کو لاپتہ قرار دیا گیا جن میں یہ چھ عصمت دری متاثرین بھی شامل ہیں۔ شبنم ہاشمی نے 2002 میں گینگ ریپ سے بچ جانے والی 50 سے زیادہ خواتین کی شہادتیں ریکارڈ کیں، ہر عورت کے پاس سنانے کے لیے ایک جیسی کہانی تھی -سرعام برہنہ کرنا، پریڈ کروانا، بھگانااور پھر گینگ ریپ اور مرنے کیلئے چھوڑنا۔ ہر وہ عورت جس کا انٹرویو لیا گیا کا کہنا تھا کہ اس نے مزید 8-10 خواتین کی اجتماعی عصمت دری ہوتے ہوئے دیکھی اور پھر ان کو زندہ جلادیا گیا۔اسی طرح بلیا روڈ کی رہائشی ایک خاتون نے گواہی میں بتایا کہ ان کے گاؤں کے بس اسٹاپ کے قریب کچھ کشیدگی تھی جہاں کچھ موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں کو آگ لگا دی گئی۔ وہ اپنے بہنوئی کے گھر پر کھانا بنا کر بیٹے کو کھلا رہی تھی کہ ایک ہجوم نے ان کے گھر کو گھیر لیا اور آگ لگا دی۔ وہ دروازہ توڑ کر گھر میں داخل ہوئے۔اور لوٹ مار کرنے کے بعد 15 بچوں سمیت سبھی افراد کے اوپر پٹرول پھینک دیا۔چند خواتین نے پچھلے دروازے سے بھاگنے کی کوشش کی تو ان کو پکڑ کر برہنہ کر دیا گیا۔ ’’ میرے بہنوئی نے ہمیں بچانے کی کوشش کی کیونکہ ہماری عصمت دری کی جا رہی تھی، تو انکو ایک دوسر ے مرد کے ساتھ ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ تین آدمیوں نے میری عصمت دری کی۔‘‘ہوش میں آنے کے بعد وہ پڑوس میں کپڑے مانگے گئے، مگر کسی نے ان کو گھروں میں داخل ہونے نہیں دیا۔ ’’ پھر ہم کھیتوں کی طرف بھاگے ،جو بھی چیتھڑے مل گئے اس میںجسم کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ راستے میں پولیس وین ملی، مگر بجائے مدد کرنے کے انہوں نے ہمیں بھاگنے کے لئے کہا۔‘‘ اس واقعہ میں 28 خواتین، جن میں 10 غیر شادی شدہ تھیں، کی اجتماعی آبرو ریزی کی گئی۔ اسی طرح گودھرا کیمپ میں ایک آٹھ سالہ چمکیلی آنکھوں والا شرمیلا بچہ بتا رہا تھا کہ جب اسکی ماں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، تو وہ اس کے ساتھ تھا۔ اس کی ماں نے پچاس روپے اس کے حوالے کرکے کہا کہ اگر زندہ رہو گے تو خرچ کرنا۔ پیسے دینے کے بعد ماں نے اس کو بھاگنے کیلئے کہا ، مگروہ ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا۔ ’’ وہاں سے میں نے سب کچھ دیکھا۔ انہوں نے میری ماں پر کیسے حملہ کیا، اس کے سارے کپڑے اتار دیے، پھر کئی مردوں نے اس کے ساتھ زیادتی کی اور پھر اسے جلا دیا۔‘‘ اس بچہ کے پاس اب کنبہ تھا نہ پیسے تھے۔ ماں کی یاد وہ پچاس روپے اس کی جیب میں اب بھی موجود تھے۔ مودی کا کہنا ہے کہ منی پور ویڈیو نے قوم کو شرمسارکر دیا ہے۔ مگر گجرات میں ان کی حکومت کے دوران جو کھیل کھیلا گیا وہ شاید چنگیز و ہلاکو کو بھی شرمسار کرنے کیلئے کافی ہے۔شبنم ہاشمی کا کہنا ہے کہ آج کے بھارت میں بربریت کا ہر ایک واقعہ گجرات ماڈل کا حصہ ہے ۔ لنچنگ، زمینوں پر قبضہ، جمہوریت، تعلیمی اور سائنسی اداروں کو ختم کرنا، میڈیا پر کنٹرول، خواتین پر بڑھتے ہوئے جنسی حملوں، آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر حملے اس کا تجربہ گجرات میں کیا گیا ہے۔ آکسفوڈ یونیورسٹی میں آزادی کے بعد گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات، جنسی تشدد اور ہندو قوم پرستی پر پیش کئے گئے اپنے مقالہ میں میگھا کمار لکھتی ہیں کہ ہندو قوم پرستی کے بانیوں یعنی ویر ساورکر اور گرو گولوالکرنے قدیم صحیفوں کا حوالہ دیکر ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف عصمت دری کو ایک جائز ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ترغیب دی تھی۔ان نظریہ سازوں کا کہنا تھاکہ ماضی میں مسلمانوں نے اپنی حکمرانی کے دوران ہندو خواتین کی جو بے حرمتی کی ہے، اس کا بدلہ اسی طرح چکایا جا سکتا ہے۔ اگر مسلمان کبھی دوبارہ بھی برسر اقتدار آتے ہیں، تو وہ ماضی کی طرح ہندو خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے بارے میں سوچنے کی اب جرأت بھی نہیںکر سکیں گے ۔ میگھا کا کہنا ہے کہ نہ صرف 2002 بلکہ 1969 کے احمد آباد میں ہوئے فسادات میںبھی مسلم خواتین کے خلاف ناقابل بیان جنسی تشدد کیا گیا تھا۔ ان کی تحقیق کے مطابق ان خواتین کو بھی خاندان اور بچو ں کے سامنے برہنہ کرکے گھما یا گیا۔ ان کی چھاتیوں کو کاٹ کر ان کے جنسی اعضاء مسخ کردئیے گئے۔ اجتماعی عصمت دری سے فرار ہونے والی ایک مسلم خاتون آمنہ بانو کی گواہی کا ذکر کرتے ہوئے آکسفورڈ کی یہ محقق کہتی ہے کہ ان خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے ان کے پاس پڑوس میں رہنے والے ہندو تھے، جن کے ساتھ وہ ساری زندگی رہتے آئے تھے۔ ان واقعات میں مشترکہ لنک یہ ہے کہ کسی بھی ملزم کبھی سزا نہیں ہوئی۔ شاید اگر 1969کے فسادیوں کو سزا مل گئی ہوتی، تو 1983میں آسام کے نیلی میں قتل عام نہیں ہوتا، اور اگر نیلی کے ملزمین کوکیفر کردار تک پہنچا گیا ہوتا، تو 1984کے سکھ مخالف فسادات نہیں ہوتے اور اگر ان میں شامل افراد کو قرار واقعی اور فوری سزائیں ملی ہوتیں، تو 2002کا گجرات فساد نہیں ہوا ہوتا ۔ منی پور بھی چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ملزمین کو کیفر کردار تک پہنچا کر متاثرین کی داد رسی کا کچھ انتظام کرو ورنہ یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے گا اور بھارت شرمسار ہوتا رہے گا۔