پیپلز پارٹی نے پانچ دہائیوں سے زیادہ مسافت طے کر لی ہے، اس سفر میں اسے لاتعداد نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔زمانہ طالب علمی کے دور سے جب سے لکھنے لکھانے کا شوق ہوا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے نہ جانے کاغذات میں جو سنبھال سنبھال کر رکھا،حکومتیں بدلتی رہیں نظام الٹتے رہے،سیاسی افق پر نت نئے چہروں کی رونمائی ہوتی رہی۔صحافت بھی عجیب شعبہ ہے۔اس میں تاریخ نت نئے زاویوں سے روزانہ قلمبند ہوتی ہے۔ایک صحافی کی حیثیت سے بہت کچھ بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔بحران ابھرتے خون بہتا اور گرد اڑتے دیکھی۔ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں 64سال بھٹو خاندان سے منسوب ہو چکے ہیں۔ آپ دیکھ لیں آج بھٹو کو رخصت ہوئے 43سال بعد بھی ان کی پیپلز پارٹی سندھ کی حکمران جماعت ہے اور یہ بات بھی بلا تردد کہی جا سکتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ میں اس کامیابی اور پاکستان میں اس پارٹی کی عزت و توقیر اور مقبولیت کے پیچھے حقیقی انسپائرنگ اور ڈرائیونگ فورس بھٹو ہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ میں سندھی بولنے والے بھٹو کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔1988ء کے عام انتخابات میں اندرون سندھ جس طرح لوگوں نے بھٹو کی پارٹی کو لینڈ سلائیڈ وکٹری دلائی اور جس طرح بڑے بڑے برج پیپلز پارٹی کے خلاف زمین بوس ہو گئے۔اس وقت بھٹو کے شیدائیوں اور مداحلوں نے اس قرض کو ووٹ دے کر اتارا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ان پر ایک قرض ہے کیونکہ وہ اس مشکل وقت میں بھٹو کی جان نہیں بچا سکے تھے۔پھر 1977ء میں بے نظیر سیاسی منظر پر آئیں اور اپنی شہادت تک اس میدان میں چمکتی رہیں،ان کی زندگی کا سفر بھی خوب تھا۔وہ پہلے بے بی تھیں لیکن فراست اور ذہانت جیسے انہیں وراثت میں ملی تھی ،پھر وہ آنسہ بے نظیر تھیں۔جہاں وہ ہندوستان کے تفریحی مقام شملہ میں اپنے نامور والد اور اندرا گاندھی کے مابین پاک بھارت تاریخی معاہدے کی عینی شاہد بنیں۔ پھر وہ بی بی کہلائیں، جن کا 10اپریل 1987ء کو لاہور میں ایسا استقبال ہوا۔تاریخ جس کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ پھر وہ 1988میں جب وزیر اعظم بنیں تو سب کے لئے محترمہ ٹھہریں، پھر جس جرات اور بے خوفی سے انہوں نے موت کو گلے لگایا، وہ بھی بے مثال تھا، جس کے بعد وہ شہید کا درجہ حاصل کر گئیں اور اب بلاول بھٹو کی صورت میں اس خاندان کا بے مثال سیاسی سفر جاری ہے۔ جب میں شریف فیملی کے متعلق سوچتا ہوں کہ آخر وہ کون سی طاقت ہے جس نے ایک چھوٹی سی فونڈری کے مالک کو پاکستان کا بڑا صنعت کار بنا دیا۔وہ کون سی طاقت ہے جس نے گمنامی کے پردے میں چھپے اس خاندان کو عالمی میڈیا کا مرغوب ترین موضوع بنا دیا۔وہ کون سی طاقت ہے، جس نے عام ذہنی سطح اور واجبی تعلیم کے مالک اس کشمیری خاندان کو پاکستان کا کامیاب ترین سیاسی گھرانہ بنا دیا، آخر وہ کیا کرشمہ سازی ہے کہ جس کی بدولت کرکٹ کے میدان سے لاہور کے گورنر ہائوس تک جانے کے سفر نے ایک خاموش طبع شخص کو تین بار اس مملکت خداداد کا وزیر اعظم بنا دیا،جو نامساعد حالات میں بھی ثابت قدم رہا اور جس نے ملک کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ویژن پر جب بھی موقع ملا عمل کیا۔جو گزشتہ 35سال سے پاکستانی سیاست کے ایک مضوبوط اور فیصلہ کن کردار کے طور پر موجود رہا۔جس نے خود کو منوایا بھی اور ہر مخالف آندھی طوفان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ عمران خان 50سال سے ہمارے سامنے اسکرین پر موجود ہیں وہ کرکٹ کے ہیرو رہے جب تک میدان میں رہے ایک دیومالائی کردار کے طور پر داد اور تحسین سمیٹتے رہے۔ انہوں نے کرکٹ کی دنیا کو خیر باد کہا، وہ ایک سوشل ریفارمز بن گئے، انہوں نے اپنی والدہ محترمہ کی یاد میں کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی چونکہ ان کی والدہ محترمہ شوکت خانم کا انتقال کینسر کے تکلیف دہ عارضے کے سبب ہوا تھا ،یہ عمران کے لئے ایک تکلیف دہ مرحلہ تھا ،لیکن اس ہسپتال کی تعمیر کے لئے جس خطیر رقم کی ضرورت تھی، پوری پاکستانی قوم غیر ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں اور مخیر حضرات نے ان کی مثالی معاونت کی۔1997ء میں جب عمران نے سیاست میں قدم رکھنے کا ارادہ کیا، تو میں نے ان سے کہا تھا کہ اگر سیاستدان بننے کے بجائے آپ سوشل ریفارمز کا کردار ادا کریں ،تو سچ پوچھیں لوگ آپ کی تصویروں کو سیلوٹ کریں گے۔آپ صحت تعلیم اور غریب لوگوں کی مدد کیلئے مختلف شعبوں میں کام کر سکتے ہیں۔لوگ آپ کے نغمے گائیں گے، چلیں خان صاحب نے سیاسی جماعت بنا لی۔2011ء سے 2018ء کے سفر میں لوگوں نے انہیں پذیرائی سے نوازا۔ خان صاحب وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچ گئے لیکن آپ نے دیکھ لیا تقریباً پونے چار سال حکومت کا مزا چکھنے کے بعد آپ کو اس کے تمام لوازمات کا اندازہ ہو گیا۔آپ خود سوچیں آپ اپنے ارادوں کے مطابق کوئی قوم تعمیر نہ کر سکے، آپ نے خود کو کتنا بے بس محسوس کیا۔ آپ کو قدرت نے پھر موقع دیا، اس موقع پر جب آپ اپنی شہرت اور عوامی پذیرائی کے ڈھلوان پر لڑھک رہے تھے قدرت نے آپ کو ایک اور لائف لائن دی، آپ کے مخالفین نے آپ کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹا دیا۔حالات دیکھتے ہی دیکھتے بدل گئے آپ کو زبردست عوامی پذیرائی حاصل ہو گئی، آپ کے مخالفین اپنے سیاسی اثاثے کے کم ہو جانے پر پریشان ضرور ہیں، آپ کو اس سفر میں اندازہ ہو گیا ہو گا، کہ آپ نے کتنا پرخطرہ راستہ اختیار کیا۔یہ تو بڑا سادا راستہ تھا، آج آپ کہاں کھڑے ہیں۔یہ جو آپ اسمبلیوں کی تحلیل کی بات کر رہے ہیں، یہ تو آپ بہت پہلے کر سکتے تھے۔خان صاحب آپ کیساتھ وہ لوگ نہیں ہیں جو کسی بڑی تبدیلی کا محرک بنتے ہیں۔ایسی عوامی شہرت اور مقبولیت اسٹاک مارکیٹ کی طرح ہوتی ہے، آپ کے دائیں بائیں جو لوگ ہیں، وہ اس چیلنج کو نبھانے کے اہل نہیں ،جس کا وعدہ آپ قوم سے کر رہے ہیں۔ورنہ ایک کروڑ نوکریوں اور 50لاکھ گھروں کا وعدہ یوں ادھورا نہ رہتا۔خان صاحب جب تاریخ بڑی سنگدل ہوتی ہے اسے حکمرانوں کی ذاتی ایمانداری سے کوئی غرض نہیں ہوتی، یہ صرف بڑے لوگوں کے کارنامے دیکھتی ہے۔