طاہر نجمی ایک مشفق ایڈیٹر اپنے جونیئرز کو کچھ نیا صحافتی ہنر سکھانے اور ایک بے تکلف دوست کی حیثیت رکھتے تھے۔وہ چار دھائیوں تک صحافت کے نت نئے روپ اور رنگوں میں خود کو ڈھالتے رہے۔ انہوں نے جہاں بھی کام کیا اپنی تمام تر صلاحیتوں اور پیشہ وارانہ مہارت کو آزماتے رہے۔انہیں اپنے دفتر سے گھر کی سی محبت اور لگائو تھا۔میں نے ان کے جتنے مضامین پڑھے وہ دو ٹوک اور بغیر لگی لپٹی انداز میں طبع آزمائی کرتے نظر آئے۔خبر کو نکھارنے اس کی حقیقت کو بیان کرنے کا فن برادرم طاہر نجمی نے خوب سیکھ لیا تھا۔ساتھ ساتھ وہ ایک متحرک اور چوکنا نیوز مین تھے۔خبر کی کریڈیبلٹی کو پروفیشنل انداز سے پرکھنے کا فن میں مہارت ہی نہیں اس کی ساکھ اور سچائی پر ڈٹ جانے والے ایڈیٹر تھے۔یہی وجہ تھی کہ جناب نیئر علوی کی وفات کے بعد ایکسپریس جیسے مقبول روزنامے کی ادارت کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کئی قابل تقلید مثالیں قائم کیں اور ان کی کاوشیں اخبار میں ان کے ساتھیوں کے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہیں گی۔طاہر نجمی سے جب بھی کسی موضوع پر گفتگو ہوتی وہ تعریف اور تنقید میں کبھی بھی الجھائو محسوس نہیں کرتے اپنی بات دو ٹوک انداز میں کہتے۔ اپ رائٹ انداز سے زندگی گزاری اسی لئے ایک دھیمے شخص نے خود کو ایک توانا فکر کے ساتھ زندہ رکھا اور وہ ابلاغی محاذ پر دیانتدارانہ انداز سے کام کرتے رہے۔انہیں اندازہ کہ بدتر حالات اور منفی تاثر کو مثبت انداز میں ڈھالنے کی صلاحیت میڈیا پرسن کا سب سے مضبوط اور موثر ہتھیار ہوتا ہے۔وہ سمجھتے تھے کہ ایک مستند اور متعبر خبر کی بنیادی وصف ہی یہ ہے کہ وہ دیانتداری سے حقائق کو بے نقاب کرے۔طاہر نجمی کہتے تھے کہ ایک صحافی کو ادب ضرور پڑھنا چاہیے تاکہ وہ اپنی خبر یا تحریر میں جو کچھ کہنا چاہتا ہے۔سلیقے اور قرینے سے کہہ سکے وہ سمجھتے تھے کہ ذرائع ابلاغ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کی حد تک اردو شفاف اور ملاوٹ سے پاک ہونی چاہیے۔لسانی افراتفری کے اس دور میں ایک صحافی کو جتنی زبانوں پر بھی عبور حاصل ہو وہ اس کا پلس پوائنٹ ہے۔وہ اس بات پر بھی شاکی رہتے تھے کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا میں جب انگریزی کے کسی پروگرام میں اردو کے لفظی پیوند سنائی نہیں دیتے یہ مجرمانہ کارروائی اردو کے ساتھ کیوں ہوتی ہے۔طاہر نجمی کا خیال تھا کہ اب ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ ایک ایڈیٹر کے طور پر کسی حساس اور اثر انگیز خبر کے اعتبار کو پرکھنے کے لئے بے شمار وسائل ہاتھ آ گئے ہیں بصورت دیگر 25سال پہلے کسی ایسی خبر کی تصدیق کے لئے ایک ایڈیٹر کو ذہنی بھنور سے گزرنا پڑتا تھا اب یہ مرحلہ نسبتاً آسان ہو گیا ہے۔ طاہر نجمی اُمید اور نوید کے ساتھ محو سفر تھے بے شمار ساتھیوں کے لئے وہ استاد تھے۔بے روزگاری اور مایوسی کے دور میں انہیں مستقبل میں روشن راہیں تلاش کرنے کی ترغیب دیتے کیونکہ ہم انہیں دیکھتے رہے۔یہ طویل ساعتیں گزرتی رہی نوجوانی اور جوانی کے ادوار کے بعد کل تک کا سفر یہ سب گزر گیا۔جانے کا وقت آ گیا اور کسی کو یوں لگتا ہے کہ کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ہم نے کئی اہم شخصیات وزرائے اعظم اور صدور کی محفلوں میں ایک ساتھ شرکت کی۔گفتگو استدلال و نشست و برخاست کے درمیان حوصلہ سلیقہ اور وضعداری مثالی تھی بڑی آہستگی اور متانت سے نوکیلے سوالات بھی کر جاتے۔میں یہ بات تو پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک متحرک اور چوکنا ایڈیٹر تھے لیکن انہیں بے قرار ادارتی سربراہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔رپورٹرز ہوں سب ایڈیٹرز ہوں یا فوٹو گرافرز سب کے ساتھ ان کا رویہ اور تعلق دوستانہ تھا کاپی کی تیاری کے مراحل براہ راست دلچسپی اور آخری لمحات میں بھاری بھرکم اشتہارات کی آمد سے خبروں کی ترتیب میں انتشار پر قابو پانا ایک ایڈیٹر کے فرائض میں شامل ہوتا ہے یہ بھی احساس رہنا کہ خبر کی غلطی پر جواب طلبی ہو جائے گی وہ ایسے کپتان تھے جن کی کپتانی میں کھیلنا کھلاڑیوں کے لئے خوشی کا باعث تھا۔اپنے سے بڑی عمر کے احباب سے حد ادب طاہر نجمی کی زندگی کا خاصہ تھا۔کافی وقت ہو گیا تھا آخری ملاقات سی پی این ای کے ایک اجلاس میں ہوئی تھی۔کہنے لگے کسی دن پریس کلب کا پروگرام بناتے ہیں۔گپ شپ رہے گی لیکن یہ ملاقات نہ ہو سکی۔یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ طاہر بھائی سے آئندہ ملاقات اس انداز میں ہو گی کہ کفن کی سفید چادر اوڑھے اس طویل سفر پر جا رہے ہوں گے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ابھی ان کی وفات کی خبر نے دل اداس کر دیا تھا کہ اس خبر نے غم اور دکھ میں ڈبو دیا کہ ہمارے ایک اور پیارے دوست ساتھی خورشید مسعود مرزا بھی اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے وہ ایک منفرد فوٹو جرنلسٹ تھے جنہوں نے زندگی بھر کیمرے کو اپنے بازوئوں میں تھامے رکھا اور ایسی ایسی شاہکار تصاویر کو اس کیمرے میں محفوظ کیا کہ جو دیکھتا عش عش کر اٹھتا۔ہم نے جنگ گروپ کے ساتھ وابستگی کے دور میں ان کے ساتھ بے شمار فوٹو سیشن کئے۔بلا تردد کہہ سکتا ہوں کہ وہ اپنے دور میں ملک کے سب سے بہترین فوٹو گرافر تھے۔ایک بار انہوں نے راولپنڈی سے اسکردو جاتے ہوئے پی آئی اے کی پہلی بوائنگ پرواز میں جو نانگا پربت اور کے ٹو اور کئی دیگر چوٹیوں کی جہاز کی کھڑکی سے جس طرح عکس بندی کی اسے ایشین فوٹو فراگر کے مقابلوں میں پہلا انعام ملا۔ان کی آنکھ بھی کیمرہ کی آنکھ سے زیادہ حساس اور شارپ تھی انہیں اس بات کا پورا آئیڈیا اور ادراک تھا کہ وہ اسٹوڈیو فوٹو گرافی ہو‘ کھیلوں کا میدان ہو‘ جہاز کی لینڈنگ اور ٹیک آف کے لمحات ہوں۔وطن عزیز ہو یا غیر ملکی حسین مناظر ان کی کلک دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتی تھی۔انہیں اندازہ تھا کہ کسی ماڈل سے لے کر کسی بھی شخصیت اور منظر کی تصویر کا سب سے دلربا اور خوبصورت اینگل کون سا ہو سکتا ہے ایک طویل عرصے تک تصویروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے والا پھر ضیاء الحق‘ ذوالفقار علی بھٹو ‘ بے نظیر اور نواز شریف کے علاوہ ایسی بے شمار تصاویر میرے پاس آج بھی موجود ہیں ایسی تصاویر جنہیں دیکھ کر آنکھ اور سانس ایک ساتھ ساکت ہو جائیں۔یہ خورشید مسعود کا کمال تھا۔اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے دوستوں کی مغفرت فرمائے(آمین)۔