امریکا کا بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے۔دو سال پہلے، انہی دنوں میں امریکہ نے جے سی پی او اے (ایران کے ایٹمی معاہدہے) سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ جے سی پی او اے(JCPOA)ایسا معاہدہ ہے جو کہ ایران اور پی فائیو + ون کے ملکوں کے درمیان ہونے والی کئی سالوں کے مذاکرات کا نتیجہ تھا۔ یہ معاہدہ دنیا کی وہ بے مثال سفارتکاری ہے جسے دنیا بھر کی رائے عامہ اور ایلیٹ نے سراہا، یہ معاہدہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی معاملات کو حل کرنے کے لئے طے پایا گیا تھا، جس سے ثابت ہوگیا ہے کہ بامقصد اور سنجیدہ مذاکرات کا نتیجہ بامقصد اور سنجیدہ ہی ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس معاہدے کو سراہا اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے نہ صرف ایران کے خلاف پابندیوں سے متعلق قراردادوں کو ختم کیا بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے کیس کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتویں باب سے نکال لیا۔ ایسا دنیا میں پہلی بار ہوا تھا کہ کسی بھی دباؤ یا محاذ آرائی کے بغیر اور صرف مذاکرات اور باہمی منظوری کی بدولت ایک ملک کا کیس ساتویں باب سے نکالا گیا ہو۔ افسوس ہے کہ امریکی حکومت کچھ ہی عرصے بعد یکطرفہ طور پر اس بین الاقوامی معاہدے سے دستبردار ہوگئی۔ امریکہ کی ایٹمی معاہدے سے علیحدگی، ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ پلاننگ تھی جو کہ امریکی صدارتی انتخابات میں شرکت کرتے وقت اس کے ذہن میں تھی۔ 8 مئی 2018ء کوٹرمپ سرکار غیر حقیقی بہانے کے ذریعے جے سی پی او اے سے دستبردار ہوگئی اور ایران کی سربلند عوام کے خلاف یکطرفہ اور غیر قانونی پابندیوں کا اعلان کر دیا۔ یہ پابندیاں دو سال گزرنے کے بعد بھی حتی ایران میں کورونا کی بیماری کے پھیلاؤ کے بعد بھی جاری رہیں جس سے نہ صرف اس وائرس کے خلاف مقابلے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے بلکہ عام لوگوں اور میڈیکل اسٹاف کی جان کے لیے خطرات جان لیوا بھی ثابت ہوئے۔ جے سی پی او اے سے علیحدگی ٹرمپ کی بین الاقوامی معاہدوں سے نکلنے کی پہلی کارروائی نہیں ہے، اس کی حکومت کا بین الاقوامی معاہدوں سے نکلنے اور بین الاقوامی اداروں پر اپنے مطالبات کو دھمکی اور ان کے فنڈز کا حصہ روکنے کے ذریعہ منوانا، پرانی روایت ہے۔ جے سی پی او اے سے نکلنے کے علاوہ اس کا بین الاقوامی معاہدوں سے نکلنے اور معاہدوں کو بطور آلہ استعمال کرنے کی کارروائیاں کچھ اس طرح ہیں۔ ٭ پیرس ماحولیاتی معاہدے سے اوباما کی دستخط کو واپس لینا۔ ٭ بحرالکاہل(TTP) کے ممالک کے درمیان فری ٹریڈ معاہدے کی منظوری سے انکار۔ ٭ میکسیکو اور کینیڈا کے فری ٹریڈ معاہدے (NAFTA) سے علیحدگی کی دھمکی۔ ٭ اقوام متحدہ کی تعلیمی اور ثقافتی ادارہ یونیسکو سے علیحدگی۔ ٭ بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالخلافہ کے طور پر ماننا اور امریکی سفارتخانہ کو اس شہر میں منتقل کرنا۔ ٭ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کونسل سے علیحدگی۔ ٭ اقوام متحدہ کی فلسطین مہاجرین کی ریلیف اور روزگار ایجنسی (UNRWA) سے علیحدگی۔ ٭عالمی عدالت جرائم کے ججوں کو پابندی کی دھمکی دینا اور سکیورٹی کونسل کو اس بات کی جانب راغب کرنا کے اس عدالت کے دایرہ اختیار کو محدود رکھا جائے تاکہ اس کو امریکہ کی افغانستان میں ایسی جرائم جو کہ شاید جنگی جرائم بھی ہیں، کی سماعت سے باز رکھا جائے۔ ٭ ایران کے ساتھ معاشی روابط اور قونصلر رائٹس کے معاہدے سے نکلنا۔ ٭ سفارتی اختلافات کو دھونس اور دھمکیوں حل کرنے سے متعلق ویانا کے کانونشن کے فریم ورک سے مربوط آپشنل پروٹوکول سے علیحدگی۔ ٹرمپ سرکار نے جے سی پی او اے سے نکلنے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کو دنیا کے مختلف موضوعات کے حوالے سے مذاکرات کی پیشکش کی تاکہ جامع موضوعات پر ایران کے ساتھ معاہدہ کر سکے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی رائے عامہ اور رہنماؤں نے اس پیشکش کو مسترد کردیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے ایک حکومت کی بین الاقوامی معاہدوں سے یکطرفہ طور پر دستبرداری اس بات کی غماز ہے کہ اس حکومت پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ نئے موضوعات اور نئی بات چیت کے دور کا انجام بھی جے سی پی او اے جیسا نہ ہو؟ امریکہ کی یک طرفہ طور پر علیحدگی کے دو سال بعد اور اسلامی جمہوریہ ایران کے اقتدار اعلی اور عوام کے خلاف غیرقانونی پابندیاں نیز پیوستہ دھمکیوں کی تناظر میں، دنیا کے خودمختار ملکوں کو چاہیے کہ وہ ان جیسی حکومتوں کی بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی پاسداری کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ یہ جدوجہد بین الاقوامی تنازعات کو روکنے کے لیے ضروری ہے اور یقینا بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ میں مثبت طور پر شامل ہوجائے گی۔