برصغیر پاک و ہند میں علم و فضل کی شمع روشن کرنے میں جن خاندانوں کی خدمات جلیلہ کا زمانہ معترف ہے ۔خیرآبادی خانوادہ کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے ۔برصغیر کی علمی اور ادبی تاریخ کا ایک روشن باب،بطل جلیل،امام حریت،امام انقلاب،امام المجاہدین علامہ محمدفضل حق خیر آبادی حنفی،ماتریدی،چشتی علیہ الرحمۃ 1212ھ بمطابق1797ء میں اپنے آبائی وطن خیر آباد ضلع سیتا پور (موجودہ صوبہ اترپردیش۔ انڈیا) میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد گرامی استاذالحکمت مولانا فضل امام خیر آبادی علیہ الرحمۃ اپنے وقت کے ممتاز عالم دین اور رئیس المتکلمین تھے ۔ دہلی میں صدر الصدور کے منصب پر فائر تھے اور خیر آبادی مکتب فکر کے بانی تھے ۔جسے بعد میں آپ کے انتہائی قابل فرزند علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ نے وسعت دی۔ آپ نے علوم عقلیہ اور درسیات کی تکمیل اپنے والد ماجدسے کی اوروالد ِ گرامی کے اندازِ تعلیم وتربیت نے صغر سنی ہی میں آپ کو ان علوم میں اپنا جیسا یگانۂ روزگار بنا دیا۔ منقولات کی تحصیل وتکمیل حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ ، حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی سے کی ۔تصوف میں حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور اپنے وقت کے عارف کامل حضرت حافظ محمد علی خیر آبادی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور آپ سے تصوف میں شیخ اکبر کتاب فصوص الحکم کا درس لیا تھا ۔بعض تذکار کی کتب میں ہے کہ آپ سلسلہ چشتیہ میں شاہ دھومَن دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے ۔صرف چارماہ میں قرآن کریم حفظ کیا اور تیرہ سال کی عمر میں درسیات سے فراغت پاکر استاذِکامل بن گئے ۔پھر دہلی میں مسند ِ درس آراستہ کی ،ملازمت کے سلسلہ میں مختلف شہرو ں میں رہے مگر درس و تدریس کا سلسلہ کہیں بھی منقطع نہیں ہوا ۔1809ء سے 1857ء تک مسلسل پچاس برس تدریس کا سلسلہ جاری رہا فرائض ملازمت ،امور سلطنت اور تصنیف و تالیف کا مشغلہ بھی اس میں کبھی حرج نہ ہوا۔آپ کے تلامذہ میں نامی گرامی شخصیات ہوئیں ،شاہ عبدالقادر بدایونی ، مولانا خیر الدین دہلوی، مولانا ہدایت اللہ رامپور ی ،مولانا فیض الحسن سہارن پوری اور مولانا عبدالحق خیرآبادی جیسے فضلاء تھے ۔ آپ معقولات کے استاد تو تھے ہی مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ عربی کے بے مثال نظم ونثر لکھنے والے تھے ۔بیک وقت شعر کی نزاکتوں اور فلسفے کی باریکیوں اور گہرائیوں سے آگاہ تھے ۔شاعری میں عربی ، فارسی اور اردو ادب پر گہری نظر تھی ،مولانا عبداللہ بلگرامی کے مطابق آپ کے عربی اشعار کی تعداد چار ہزار سے متجاوز ہے جن میں بیش تر نعت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہیں۔ایک جہاں نے آپ علم وفضل سے استفادہ کیا ،کثیر اصحاب ِ علم وفضل اور اربابِ شعر وادب دور دور سے اپنی تصنیفات اور منظومات اصلاح کے لیے آپ کی خدمت میں ارسال کرتے تھے اور نامور علماء اپنی تصانیف پر تقاریظ لکھواتے تھے ۔مرزا اسد اللہ غالب ؔ کے آپ سے گہرے مراسم تھے ۔ایک خط میں انھوں نے آپ کو ’فاضل بے نظیر ویگانہ‘کے خطاب سے یاد کیا ۔ انگریزوں کے ایماء پر انتشارِ مسلم کے لیے رسوائے زمانہ کتابوں کی اشاعت کی گئی، جس میں انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم کی شان میں تنقیص کا دروازہ کھولا گیا اور سادہ لوح مسلمانوں کو مشرک قراردیا گیا تو علامہ خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ نے سب سے پہلے اس پر گرفت کی کیونکہ آپ اپنی خداداد صلاحیتوں سے ان کتب کی عبارات سے اٹھنے والے دو بڑے فتنوں (انکار ختم نبوت اور امکان کذب) کو بھانپ چکے تھے ، آپ نے مضبوط دلائل عقلیہ و نقلیہ سے مزین دو کتابیں’تحقیق الفتوی فی ابطال الطغوی‘ اور’امتناع نظیر‘ کے نام سے تصنیف کر کے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دیا۔ آپ نے تصانیف کا ذخیرہ یادگار چھوڑا،جن میں زیادہ تر کتب منطق ، طبیعات ، اُمورِ عامہ ، الہٰیات اور علم کلام وعقائد سے متعلق ہیں ۔آپ کی تالیفات میں جا بجا اجتہادوتحقیق کی شان نظر آتی ہے ۔ 1857ء کا انقلاب جب شروع ہوا تو آپ الور سے دہلی آئے اور بہادر شاہ ظفر سے آپ کی ملاقاتیں رہیں، جہاد آزادی کے حوالہ سے بادشاہ کے ساتھ کئی مشوروں میں شریک ہوتے ، بالآخر بعد نماز جمعہ دہلی کی جامع مسجد میں علماء کے سامنے جہاد کے عنوان پر تقریر کی اور ایک استفتاء پیش کیا، جس پر جید علماء نے دستخط کیے ، اس فتوی کا شائع ہونا تھا کہ پورے ملک میں ہلچل سی مچ گئی اور دہلی میں نوے ہزار سپاہی جمع ہو گئے ، تمام تر کوششوں کے باوجود مجاہدین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور دیگر علماء کی طرح آپ کو بھی گرفتار کرلیا گیا، آپ کی جائیداد ضبط کرلی گئیں، 30جنوری 1859ء میں آپ کو گرفتار کرکے لکھنئو بھیج دیا گیا جہاں مقدمہ چلا اوراور’’ جس دوام بعبور دریائے شور‘‘ کی سزا کا فیصلہ سنایا گیااور تاحیات قید کے لیے جزیرہ ٔانڈمان (کالا پانی) بھیج دیا گیا۔ اُس وقت آپ کی ملازمت وقت کی ضرورت تھی یہ ملازمت انگریزوں سے خیرخواہی کی وجہ سے نہ تھی،آپ کے کسی جملے یاشعرمیں انگریز کی خیر خواہی نہیں جھلکتی، بلکہ عربی قصائدمیں تو دشمنی اور نفرت صاف جھلک رہی ہے ۔ آپ اپنے قصیدہ ہمزیہ میں لکھتے ہیں:ترجمہ’’میں نے اس کے سوا کوئی گناہ نہیں کیا کہ ان نصرانیوں سے کسی قسم کی محبت اور دلچسپی نہیں رکھی۔ان کی محبت کفر ہے قرآن کی نصِ واضح سے ، حق پرست انسان کو اس میں شک نہیں ہوسکتا۔ان سے محبت کیسے روا ہو جب کہ یہ دشمن ہیں اس ذات کے جن کے لیے زمین و آسمان اور تمام کائنات کی تخلیق ہوئی ہے ۔‘‘بلکہ عدالت میں مقدمہ کی سماعت کے دوران گواہ نے علامہ سے مرعوب ہوکر جب یہ کہا کہ یہ وہ مولانا فضل حق نہیں ہیں جنھوں نے فتویٰ جہاد دیا تھا، اس وقت آپ نے برملا اظہار کیا کہ’’یہ جھوٹ بول رہا ہے ، وہ فتویٰ صحیح ہے ، میرا لکھا ہوا ہے ، اور آج اس وقت بھی میری وہی رائے ہے ۔‘‘ آپ جزیرہ انڈمان میں ایک سال دس ماہ تیرہ دن اسیر ی میں رہ کر 12 صفر 1278ھ بمطابق 20 اگست 1861ء کو اِس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے اور وہیں آپ کا مدفن بنا۔ (مصادر ومراجع: خیرآبادیات، باغی ہندوستان قائدانقلاب علامہ فضل حق خیرآبادی، ماہنامہ العاقب ،فضل حق خیرآبادی نمبر)