دنیا اس وقت دو گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتا گروہ اور دوسرا اسرائیل کی حمایت میں مظاہرے کرتا ہوا ۔ بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب کے ہر جیتا جاگتا اور باضمیر انسان جو ظلم اور انصاف میں تمیز رکھتا ہے اچھی طرح سے جانتا ہے کہ کون حق پرست ہے اور کونسا گروہ ظالم اور ظلم کا ساتھ دے رہا ہے۔ بلاشبہ ظالم کے ہاتھ بہت مضبوط اور شکنجہ آہنی ہے ، دنیا کی تمام تر قوتیں ایک طرف صف آرا ہیں اور مظلوم اپنے دلوں میں پنہاں ایمان کی طاقت اور اللّٰہ کے بھروسے پر نگاہیں اٹھائے آسمان کو تک رہے ہیں۔ اپنی تقدیر اور اپنے نصیب پر صابر و شاکر غزہ کے مسلمان ایک مضبوط چٹان بنے کھڑے ہیں۔ دن بھر ملبے تلے سے لاشیں اٹھانے اور رات بھر بم و بارود سے بھرے آسمان تلے بے یارو مددگار سختیاں جھیل رہے ہیں مگر سلام ہے انکے حوصلے اور صبر کو جو ڈٹ کر حالات کی ستم ظریفی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ڈیڑھ ماہ ہونے کو ہے ۔شدید بمباری، چاروں جانب ناچتی موت اور بربریت ، عربوں کی بے حسی اور مسلم دنیا کی بے بسی کا تماشا دیکھتے فلسطینی یقیناً اللّٰہ کی نظروں میں بہت معتبر ہیں جو ان حالات میں بھی "حسبنا اللّٰہ و نعم الوکیل" کا ورد کرتے نہیں تھکتے۔ یقیناً وہ اپنے امتحان میں کامیاب ٹھہرے اور ساتھ ہی ہمیں ایک امتحان میں ڈال گئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہماری حیثیت اور وقعت کیا ہے ؟ ساری زندگی ہی سنتے آئے کہ مسلمان بھائی بھائی ہیں ، ایک جسم کی مانند ہیں، ایک امتی ہیں وغیرہ وغیرہ اور جب اصل آزمائش کا وقت آیا تو سبھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ یہاں میں صاحب اقتدار طبقے سے مخاطب ہوں جو اصل مجرم ہیں ، جو اس بربریت کو دیکھنے کے باوجود خاموش ہیں۔ اور جو بولے وہ محض چند مذمتی الفاظ سے آگے نا بڑھ سکے۔ گویا عملی میدان میں سبھی نے انتہائی مایوس کیا جن کے دعوے ، نعرے اور طاقت کے مظاہرے محض باتوں اور دکھاوے بازی کی حد تک ہیں۔ مغرب کی تمیز ، تہذیب، انسانی حقوق کی ٹھیکیداری، انصاف کا بول بالا ، سچائی کا ڈھونگ سبھی 2023 کی جدید دنیا میں تار تار ہو گیا اور باقی رہ گئی شور مچانے والے عام لوگ!! جنکی خون پسینے کی کمائی سے یہ طاقتیں آج انہی کی گردنوں میں دانت جمائے کھڑی ہیں۔ دنیا بھر میں جس نے سچ بولا اسکی زبان بندی کر دی گئی ، سوشل میڈیا پر سچ بتانے اور دکھانے والوں کے اکاونٹ بند کر دیے گئے، نوکریوں سے نکال دیا گیا ، کاروبار بند کرنے کی حتیٰ کہجان سے مارنے کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے پچھلے چند ہفتوں میں مغرب کی حقیقی تصویر کھل کر سامنے آگئی ہے اور انکے دوہرے معیار اور منافقانہ طرز سیاست نے مغرب میں رہنے والوں کو حیران اور پریشان کر دیا ہے۔ امریکہ، یوکے، یورپ، آسٹریلیا ، کینیڈا گویا دنیا کے ہر کونے سے ظلم کے خلاف آوازیں اٹھائی گئیں لیکن ظالم کی گردن پہ جوں تک نا رینگی۔ بیشرمی اور ڈھٹائی سے لگ بھگ چودہ ہزار فلسطینیوں کا قتل عام کیا جا چکا ہے اور ابھی بھی سینکڑوں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس اذیت ناک صورتحال میں چند گھڑی کا وقفہ کرنے پر اکتفا کیاگیا ہے گویا غزہ والوں پر احسان ہو رہا ہے۔ دنیا بھر سے شدید تنقید اور دباؤ کے نتیجے میں ، قطر اور یو اے ای کی ثالثی کی کوششوں کے بعد آخرکار امریکہ اور اسرائیل محض چار دن کی جنگ بندی پر راضی ہوئے ہیں۔ اس عارضی جنگ بندی کا بنیادی ہدف فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ اور حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی ہے۔ نیز یہ جنگ بندی غزہ میں امدادی سامان سے بھرے ٹرک داخل کرنے، بنیادی ضروریات کی فراہمی اور مریضوں کے لیے ہسپتالوں میں دوا اور میڈیکل ایڈ پہنچانے کے لیے کی گئی ہے۔ اب تو وہاں صورتحال اتنی بھیانک ہو چکی ہے کہ اسکا تصور اور ذکر بھی محال ہے۔ نا دوا نا دارو۔۔۔۔ اور دفنانے کے لیے کفن بچے ہیں نا زمین!! اگرچہ غزہ کے لوگوں نے چار دن کی جنگ بندی پر شکر کا سانس لیا ہے لیکن انکے لیے یہ کافی نہیں۔ وہاں کے لوگ مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مستقل جنگ بندی کی جائے ، قابض افواج کی قید میں پڑے بے گناہ بچوں ، عورتوں اور نوجوانوں کوبھی رہا کیا جائے۔ جنگ بندی کے اس معاہدے کے پیش نظر دونوں جانب سے یرغمالیوں اور قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے اور اگلے چند روز میں مزید لوگوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے رہا کیا جائے گا۔ لیکن ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اس وقت تقریباً سات ہزار فلسطینی اسرائیل کی قید میں ہیں اور سات اکتوبر کے بعد تین ہزار فلسطینیوں کو غزہ اور بیت المقدس کے مختلف علاقوں سے پکڑ کر قیدی بنایا گیا ہے۔ ان کیساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جا رہا ہے اور بیشتر افراد پر کوئی مقدمہ یا دیگر قانونی کارروائی بھی نہیں کی گئی لیکن یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر غزہ میں دوبارہ سے بحالی کا کام کیسے ممکن ہے ؟ صرف چار دن کی جنگ بندی سے لوگوں کو کیا فایدہ ہوگا؟ یہ چار دن بھی ملبے تلے سے اپنے عزیز و اقارب کو تلاش کرنے ، انکو دفنانے، مریضوں کو ہسپتالوں میں منتقل کرنے اور بیرونی دنیا سے آئی ہوئی امداد کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں گزر جائیں گے۔ یہ چار دن ایک ڈراؤنے خواب میں چند گھڑی کا وقفہ ہیں اور اسکے بعد پھر طویل رات اور موت کا راج ! میں اور میرے جیسے بے بس لوگ محض دعاؤں سے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے مدد و معافی کے طلبگار بھی ہیں کہ جب روز محشر 7 اکتوبر 2023 کا مقدمہ اٹھایا جائے گا تو ہم سے یہ سوال نہ ہو جائے کہ بتاؤ تم نے اس ظلم کو مٹانے کے لیے کیا کیا؟؟ بہرحال تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے اور وہ یہ کہ اس جنگ نے امریکہ اور اسرائیل کو شدید مالی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ ملین ڈالرز کا نقصان اٹھانے کے بعد اسرائیل اپنی مالی پوزیشن میں تقریباً بیس سال پیچھے چلا گیا ہے اور اسکا اتحادی امریکہ " اگلی جائے نا نگلی جائے" والی صورتحال سے دوچار ہے۔ حماس کو روئے زمین سے مٹانے کا عزم لیے ہوئے جس جنگ کا آغاز کیا گیا اب انکے اپنے گلے کا پھندہ بن چکی ہے۔ مغربی میڈیا پر دکھائے جانے والے جھوٹ کے پلندے ایک کے بعد ایک کر کے عیاں ہوتے جا رہے ہیں اور صورتحال بے قابو ہوتی جارہی ہے۔ کلونیئل ازم سے جنم لینے والے یہ ظالم و جابر حکمران جو نسل کشی کے ذریعے فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں اسکے پیچھے وہی لالچ، حرص اور دنیا پر مکمل قبضے کی خواہش پنہاں ہے۔ لیکن ایسا کب تک چلے گا؟ ظالم و مظلوم کے مابین ازل سے چلی آ رہی یہ جنگ کب ختم ہو گی ؟ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ مگر تاریخ گواہ ہے اور قدرت کا بھی یہی نظام ہے کہ اللّٰہ ظالم کی رسی کو ڈھیل تو دیتا ہے لیکن جب یہی رسی کھینچتا ہے تو ظالم اور اسکے ساتھی صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں اور انکا نام لینے کوئی باقی نہیں رہتا اور ان شاء اللہ ایسا ہی ہو گا۔ اس مشکل گھڑی نے باضمیر اور بے ضمیر لوگوں کو الگ الگ قطار میں کھڑا کردیا ہے۔ اسلاموفوبیا کی شکار مغربی دنیا بھی حیران ہے کہ آخر اسلام اور اسکے نام لیوا اتنے مضبوط اعصاب کے مالک کیسے ہو سکتے ہیں جو دن رات کی بمباری اور فاسفورس بموں کی بارش میں بھی اپنی دھرتی چھوڑنے کو تیار نہیں اور اس جنگ کا سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ یورپ میں بسنے والے سینکڑوں افراد نے اپنے سوالوں کے جواب قرآن سے ڈھونڈنے شروع کر دیئے ہیں۔ سچ اور حق کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ سچ اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے اور جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے!!