ایک نناوے سال کا بوڑھا شخص جو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکاہے‘ ا ٓرام کرسی پر نیم دراز ہے۔وہ دو ہفتے سے خاموش تھا۔ آج خوب باتیں کررہا ہے۔ تیمار داری کے لیے آئے احباب سے پوچھ رہا ہے کہ مجھے یہ بتائیں کہ پاکستان اتنی ترقی کیوں نہیں کرسکا جتنی اسے کرنی چاہیے تھی‘ مثلاً یورپ کے ملکوں کی طرح آگے کیوں نہیں بڑھ سکا؟ اسکے عزیز اور احباب اس کے آس پاس بیٹھے ہمہ تن گوش ہیں۔بزرگ سوال کررہا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام کیسے بہتر ہوسکتا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ ’ اگر کوئی طالبعلم کسی استاد سے اختلاف کرے تو اُستاد کواس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ‘ اسے سزا نہیں دینی چاہیے‘ ایسے طالبعلم کو آگے بڑھنے میں مدد دینی چاہیے۔ پرانے زمانے میں اسکولوں کے ہیڈ ماسٹرز سے کہا جاتا تھاکہ حکومت کو اپنے بہترین‘ لائق بچوں کا بتائیں ‘ حکومت انہیں منتخب کرکے اُن کا خیال رکھتی تھی۔ ایسا ہی ایک بچہ سابق صدر غلام اسحاق خان تھا جن کا نام اُس وقت کی حکومت کو ان کے ہیڈ ماسٹر نے تجویز کیا تھا۔‘ یہ بوڑھے آدمی ڈاکٹر مبشر حسن تھے جواپنے مرنے سے چھ سات دن پہلے سہہ پہر کے وقت دو گھنٹے سے زیادہ قومی اُمور پر گپ شپ کرتے رہے۔ میں اُن چند خوش نصیب لوگوں میں شامل تھا جو ان کے گرد بیٹھے اُن کی باتوں سے فیض یاب ہورہے تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ چراغ بجھنے سے پہلے اُس کی لو اچانک بھڑکتی ہے ‘ یہ وہ کیفیت ہے۔ بروز ہفتہ چودہ مارچ کی صبح ڈاکٹر صاحب انتقال فرما گئے۔گزشتہ بائیس جنوری کواُنکے دوست قاسم جعفری نے اُن کی زندگی کے اٹھانویں برس مکمل ہونے پر سالگرہ کی ایک چھوٹی سی تقریب منعقد کی تھی۔ ڈاکٹرمبشر حسن دو برس سے علیل تھے۔ ان کا جسم ان کا ساتھ چھوڑ رہا تھا۔ وہ بستر پر لیٹے رہتے تھے یا ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے تھے لیکن ان کا دماغ آخر وقت تک چوکس رہا۔اُن سے میرا گزشتہ پینتیس سال تک مسلسل تعلق رہا۔ ڈاکٹر صاحب کا گھر دانشوروں کی بیٹھک تھی۔ چند سال پہلے تک ان کے گھر پر صبح اور سہہ پہر کے وقت گھنٹوںسیاسی ورکروں‘لیڈروں‘ دانشوروں‘ صحافیوں ‘ سول سوسائٹی کارکنوں کی آمد و رفت لگی رہتی تھی۔ ملکی اور سماجی مسائل پربحثیں ہوتی رہتی تھیں۔ ان کا زندگی میںیہی ایک بڑامشغلہ تھا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایک طاقتور وزیرخزانہ رہے۔ لیکن نہ کوئی مال بنایا نہ اس کام میں دل چسپی تھی۔نہ اقتدار کا لالچ کیا حالانکہ اُنکا اچھا خاصا حلقہ ٔاثر تھا۔ ڈیڑھ سال بعدہی بھٹو کی کابینہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی ۔ جنرل ضیا ا لحق کے مارشل لا کے بعد وہ عملی سیاست سے تقریباً کنارہ کش ہوگئے تھے۔انہوں نے ایک عوامی دانشور‘ رہنما اور استاد کا کردار اپنا لیا تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے گروپ بناتے رہتے تھے جو ملکی مسائل پرغور و فکر کرتے ‘ سیمینار منعقد کرتے اور کبھی ان بحثوںکو کتابچوں کی صورت میں شائع کردیا جاتا تھا۔ خود بھی درجنوں کتابیںاورسینکڑوں مضامین لکھے۔ ـ’شاہراہ انقلاب (دو جلدیں) ـ۔ ’ عوامی لیڈر‘ او ر ’رزم ِزندگی‘ اُنکی اہم کتابیں ہیں۔سادہ سی زندگی تھی‘ سادہ کپڑے‘ گھر میں معمولی سا فرنیچر‘ پرانی فوکسی کار۔ ساٹھ کی دہائی میں سیاست میں آنے سے پہلے لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ میں دس سال سول انجینئرنگ کے اُستاد رہے۔ کچھ موروثی زرعی اراضی تھی ‘ صرف اسکی آمدن پر ساری زندگی قناعت کیے رکھی۔ اپنا مکان تک نہیں بنایا۔ایک پلاٹ تک نہیں لیا۔ اپنے بڑے بھائی شبر حسن کے بنگلہ کے ایک حصّہ میں رہائش پذیر رہے۔ اولاد نہیں تھی لیکن کتنے ہی نوجوانوں کو اپنی اولاد کی طرح سمجھ کر اپنائیت اورخلوص بانٹتے رہے۔ عام لوگ ڈاکٹر مبشر کو اس حوالہ سے جانتے ہیں کہ وہ سوشلسٹ تھے اور انہوں نے بھٹو دور میں کارخانوں کو قومی ملکیت میں لیا تھا۔ یہ ان کی شخصیت کا ایک پہلو تھا۔ انیس سوچوراسی میں ڈاکٹرصاحب نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر ایک کتابچہ ’ہمارا تحفظ‘ کے نام سے شائع کیا جس میں پہلی بار پاکستان میںاقتدار کی عدم مرکزیت کا تصور بہت تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ۔ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اقتدار و اختیار مرکز سے صوبوں‘ ضلعوں ‘ تحصیلوںاور نیچے گاؤں کی سطح تک منتقل کیا جائے۔ یہی صحیح معنوں میں جمہوریت ہوگی۔ آج مقامی حکومتوں کے نظام پر بات چیت ہمارے قومی بیانیہ کابڑا موضوع ہے لیکن ہمارے ملک میں اس خیال کی ابتدا ء ڈاکٹر مبشر حسن نے کی۔ وہ اسکی مسلسل ترویج کرتے رہے۔انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے قیام اور اسے فعال بنانے میں بھی ان کا اہم کردارتھا۔ انیس سو پچاسی سے ڈاکٹر صاحب نے بھارت اور پاکستان کے درمیان پس پردہ ڈپلومیسی کا کام شروع کردیا تھا لیکن اس کا چرچا نہیں کیا۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان ایک پُل کا سا کرداراپنا لیا تھا۔اس ڈپلومیسی کی نتیجہ میںپاک انڈیا عوامی فورم برائے امن و جمہوریت بھی قائم ہوا۔دو ہزار تین میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جو سیز فائر معاہدہ ہوا اس کی تجویز ڈاکٹر صاحب ہی بھارت سے لیکر آئے تھے جس پر بعد میںباقاعدہ کام شروع ہوا اور دونوں ملکوں کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ ہوگیا۔ ڈاکٹر مبشر حسن پاکستان کے بے غرض‘ پُر خلوص‘انتھک خدمت گزار تھے ۔ وہ ایسے شخص تھے جو اپنے معاشرہ سے کچھ لینے کی بجائے اسے دینے پر یقین رکھتے تھے۔ وہ ظاہری طور پر مذہبی آدمی نہیں تھے البتہ ان کی سوچ‘ عملی زندگی نام نہاد مذہبی لوگوں سے زیادہ پاک صاف‘ اُجلی تھی۔ استغنا پر مبنی طرزِ زندگی تھا ‘ معاشرہ کی اجتماعی بہتری کے لیے زندگی وقف کی ہوئی تھی۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کودیکھ کرلگتا تھا کہ وہ امام جعفرصادق کی سنّت پر عمل پیراہیں کہ امام بھی عملی سیاست سے دُور رہ کر ہمہ وقت علم کی ترویج اور اُمت کی رہنمائی میں مصروف رہے۔