صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت عامر میر کے زیر صدارت پنجاب رائٹرز ویلفیئر فنڈز کا اجلاس ہوا جس میں خطاب کرتے ہوئے عامر میر نے کہا کہ مالی معاونت کے خواہشمند لکھاریوں، ادیبوں اور شعراء کی لسٹ مرتب کرکے ان کی فوری مدد کی جائے۔صوبائی وزیر اطلاعات کا یہ اقدام نہایت احسن ہے اور اس پر فوری عملدرآمد بھی ہونا چاہئے۔ صوبائی وزیر اطلاعات کو یہ پہلو بھی سامنے رکھنا چاہئے کہ وسیب کے اہل قلم کو ہمیشہ شکایات رہی ہیں اور وسیب کے اہل قلم کی یہ شکایات یکسر غلط بھی نہیں کہ ہم دیہات والوں کے سامنے یہ بات ہر روز آتی ہے کہ نہروں کا پانی ٹیل تک پہنچنے سے پہلے ختم ہو جاتا ہے۔ اس میں خامی نہروں کو ڈیزائن کرنے والے انجینئرز کی نہیں بلکہ با اثر پانی چور جو کہ آبپاشی کے اہلکاران سے مل کر ڈاکہ ڈالتے ہیں ، کی ہے۔ غالباً اسی بناء پر عامر میر نے یہ ہدایات جاری کیں کہ ویلفیئر فنڈ کی تقسیم کے طریقہ کار کو شفاف بنانے کے لئے ایک سب کمیٹی بنائی جائے۔ ایک کہاوت ہے کہ جس کام کی کمیٹی بن جائے سمجھ لو وہ نہ ہوا۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ وزارت اطلاعات پنجاب اور وسیب کا فنڈ دو حصوں میں تقسیم کر دے۔ وزارت اطلاعات کے محکمے، وسیب کے اضلاع اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز پر موجود ہیں۔ سول سیکرٹریٹ بھی بنا دیا گیا ہے۔ اگر یہ چھوٹے موٹے کام بھی سول سیکرٹریٹ کے ذمے نہیں لگائے جاتے تو اس کے قیام کا فائدہ؟ اجلاس کے موقع پر سیکرٹری اطلاعات و ثقافت علی نواز ملک کے مطابق کمیٹی لاہور آرٹس کونسل، پنجاب آرٹس کونسل اور مجلس ترقی ادب کے ذریعے مالی معاونت کے خواہشمندوں کی سکروٹنی کرے گی۔ سیکرٹری اطلاعات و ثقافت علی نواز ملک صاحب بہت اچھے آدمی ہیں۔ پچھلے دنوں لاہور میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ وسیب کے مسائل انہوں نے توجہ سے سنے اور مسائل کے حل کی یقین دہانی بھی کرائی۔ خوش قسمتی سے ان کا تعلق میاں چنوں سے ہے۔ اب پنجاب آرٹس کونسل اور مجلس ترقی ادب کے ذریعے مالی معاونت کی سکروٹنی کا ذکر آیا ہے تو میں عرض کرتا چلوں کہ اس شعبہ میں بھی وسیب کے لوگوں کو شکایات ہیںکہ پسماندگی، غربت اور بیروزگاری کے حوالے سے مستحق وسیب ہے مگر یہ کیا بات ہوئی کہ وسیب کے تمام اضلاع سے بڑھ کر صرف ایک ضلع کے ’’ضرورت مند‘‘ زیادہ فنڈ لے جاتے ہیں۔ وسیب کے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کا مرکز میرا دفتر جھوک سرائیکی ہے۔ جب میں حکومت کی طرف سے فنکاروں کی امداد بارے کوئی خبر پڑھتا ہوں تو میرے سامنے ماضی کی پوری فلم گھوم جاتی ہے۔ مجھے ملتان کی کوئل نسیم اختر یاد آجاتی ہے۔ جس کے علاج کیلئے ہم نے مسلسل آواز اٹھائی مگر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ جھوک کے دفتر میں قیام پذیر ریڈیو پاکستان ملتان کے کلاسیکل گلوکار استاد سجاد رسول جو کہ مہدی حسن کے پیارے شاگرد تھے یاد آجاتے ہیں۔ ہماری درخواستوں کے باوجود نہ ان کی مالی مدد کی گئی اور نہ ہی سرکاری خرچ پر علاج ہو سکا۔ ایسی خبریں پڑھتا ہوں تو مجھے ریڈیو پاکستان ملتان کی بہت بڑی آواز نسیم سیمی یاد آجاتی ہے جو مسلسل تین ، چار سال بیمار رہی۔ ان کی زندگی کا واحد سہارا جھوک کا دفتر تھا۔ ہم سے جو کچھ ہو سکا ہم نے کیا مگر حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہ ملی۔ اگر آرٹسٹ سپورٹ فنڈ فنکاروں کی بہبود کیلئے ہے تو اُس سے حقیقی فنکار کیوں محروم رہتے ہیں؟ یہی بات صوبائی وزیر اطلاعات اور سیکرٹری اطلاعات کے سوچنے کی ہے۔ لاہور میں ہونے والے اجلاس کا ذکر ہوا ہے تو میں بتاتا چلوں کہ عید کے دوسرے دن دھریجہ نگر میں وسیب کے تین اہل قلم صوفی نجیب اللہ نازش، امان اللہ ارشد اور جام ایم ڈی گانگا کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ہمارے یہ تینوں شعراء سخت علیل ہیں۔ امان اللہ ارشد کا سرائیکی ادب کی دنیا میں بہت بڑا نام ہے۔ درجن کے لگ بھگ کتابوں کے مصنف ہیں، اور امان اللہ ارشد وسیب کے واحد شاعر ہیں جن کی فنی حیثیت، فکری منصب اور اسلوبی سیادت کو ایک زمانہ تسلیم کرتا ہے۔ بائی پاس ہوا ہے، شوگر اور دیگر عوارض نے ان کو بستر پر لٹا دیا ہے، خودار ہیں۔ وہ اپنی زبان سے کسی کو نہیں کہتے مگر حکومت کو خیال نہیں آیا۔ اسی طرح سرائیکی گیتوں کے بے تاج بادشاہ صوفی نجیب اللہ نازش کے گردے کام کرنا چھوڑ گئے ہیں وہ ڈائیلسز پر چلے گئے ہیں۔ شوگر نے آنکھوں کی بینائی بھی چھین لی ہے مگر حکومت کے کسی اہلکار کی طرف سے پھولوں کا گلدستہ بھی پیش نہیں ہوا۔ اکھیں کرماں ماریاں اکھیں کہیں توں گیا واریاں اکھیں میں تاں منظر ڈیکھ نی سگدا تئیں ڈو ڈہدن ساریاں اکھیں اجلاس کے موقع پر صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر نے کہا کہ کمیٹی حقدار لکھاریوں، ادیبوں اور شعراء میں رقم کی تقسیم کو یقینی بنائے گی۔اجلاس میں پنجاب رائٹرز ویلفیئر فنڈ کے بورڈ آف گورنرز کے اراکین بشمول عطا اللہ الحق قاسمی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، نیلم احمد بشیر، خالد قیوم، عنبرین فاطمہ و دیگر نے شرکت کی۔ صوبائی وزیر اطلاعات عالمی شہرت یافتہ اینکر حامد میر کے بھائی ہیں۔ حامد میر غیر منصفانہ امتیازی سلوک کے خلاف ہمیشہ بات کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وسیب کے لوگ بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں اگر میں بات نہ بڑھائوں صرف اتنا عرض کروں کہ رائٹرز ویلفیئر فنڈز کے بورڈ آف گورنر کے اراکین میں وسیب کے لوگ کتنے شامل ہیں؟ اس سوال کے جواب سے محرومی کی ساری داستان سامنے آسکتی ہے۔ پچھلے دنوں میں نے شاکر شجاع آبادی کی مدد کیلئے ایک ادارے کو لکھا تو مجھے جواب ملا کہ وہ تو بارہ مہینے بیمار رہتے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ اس میں کیا شک ہے کہ وہ بچپن سے لے کر آج تک مسلسل علیل چلے آرہے ہیں۔ شاکر نے خود کہا تھا بھلا خوشیاں کہیں کوں چک پیندن کوئی خوشی ٹھکرا پتہ لگ ویندے جیڑھی چیخ پکار کوں پھند اہدیں اوہا توں چا بنا پتہ لگ ویندے جے روون اپنے وس ہووندے توں رو ڈکھلا پتہ لگ ویندے جیویں عمر نبھی ہے شاکر دی ہک منٹ نبھا، پتہ لگ ویندے