آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور سینئر رہنما شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں دس دس سال قید کی سزا سنا ئی ہے۔ خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے مقدمے کی سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سنایا ۔خصوصی عدالت کے جج نے اپنے فیصلے میں بتایا کہ استغاثہ کے پاس ٹھوس شواہد موجود تھے، پراسیکیوشن کامیاب رہی ۔سزا سنائے جانے کے وقت عمران خان اور شاہ محمود قریشی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔تحریک انصاف کے رہنما حامد خان کا کہنا ہے کہ ان کے وکلا کو عدالت میں پیش نہیں ہونے دیا گیا۔ خصوصی عدالت میں زیر سماعت سائفر کیس میں رات گئے تک جاری رہنے والی کارروائی کے دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف 25 گواہان کے بیانات قلمبند کئے گئے ۔میڈیا ذرائع کے مطابق جب عدالت نے عمران خان کا 342 کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے روسٹرم پر بلایا تو ان سے کہا کہ اگر وہ عدالت کو کچھ بتانا چاہتے ہیں تو بتا سکتے ہیں۔ جس پر عمران خان نے کہا کہ میں عدالت کو کچھ بتانا چاہتا ہوں۔عدالت نے عمران خان سے پوچھا کہ کیا سائفر آپ کے پاس ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ سائفر میرے پاس نہیں بلکہ میرے دفتر میں تھا اور وہاں کی سکیورٹی کی ذمہ داری میری نہیں بلکہ وہاں پر ملٹری سیکرٹری اور پرنسپل سیکرٹری بھی ہوتے ہیں۔ اس مقدمے میں مجموعی طور پر 28 گواہان تھے جن میں سے تین گواہوں کو عدالت میں پراسکیوشن کی جانب سے پیش ہی نہیں کیا گیا۔اس کیس میں عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان، سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کے بیانات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی کو جس سائفر کیس میں دس دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے وہ مقدمہ سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے پاس سے غائب ہو گئی تھی۔بیان کیا جاتا ہے کہ یہ دستاویز اسسٹنٹ سیکرٹری سنٹرل اینڈ ساوتھ ایشیا افئیرز ڈونلڈ لو کے دھمکی آمیز پیغام پر مشتمل تھی جو انہوں نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید کو دیا۔امریکی شخصیت نے بقول بانی پی ٹی آئی تحریک انصاف حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہونے پر سنگین نتائج کا انتباہ کیا تھا۔عمران خان نے مارچ 2022 میں اسلام آباد میں ایک عوامی جلسے میں امریکہ میں پاکستانی سفیر کے مراسلے یا سائفر کو بنیاد بنا کر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ بنایا تھا جس میں انھوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے کی مبینہ سازش میں ایک غیر ملک کا کردار ہے۔پی ٹی آئی حکومت نے اپنے دور میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سائفر کے معاملے پر امریکی سفیر کو ڈیمارش دینے کا کہا تاہم پی ٹی آئی حکومت ختم ہونے کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سائفر کے متعلق پی ٹی آئی حکومت کے مؤقف کی تردید کر دی گئی۔ سائفر سے متعلق عمران خان اور ان کے سابق سیکرٹری اعظم خان کی ایک آڈیو لیک سامنے آئی تھی جس میں عمران خان کو کہتے سنا گیا تھا کہ ’اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، امریکہ کا نام نہیں لینا، بس صرف یہ کھیلنا ہے کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی۔یاد رہے کہ اعظم خان وزیراعظم عمران خان کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔ پی ڈی ایم حکومت میں آئی تووفاقی کابینہ نے اس معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کر دیں۔ ایف آئی اے کی جانب سے درج ایف آئی آر میں شاہ محمود قریشی کو بھی نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ پانچ (معلومات کا غلط استعمال) اور دفعہ نو کے ساتھ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ایف آئی آر کے مطابق سات مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی مراسلہ (سائفر) موصول ہوا، پانچ اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے نامزد کیا گیا تھا۔مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں دس دس سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر عمران خان کا پیغام جاری کیا ہے جس میں انھوں نے اس فیصلے کو قانونی ضابطوں اور آئینی تقاضوں کے منافی قرار دیا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کے خلاف بدھ (آج) ہی اپیل دائر کر دی جائے گی۔ علی ظفر نے کہا کہ اس کیس میں انصاف کے تقاضوں کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔سائفر مقدمے میں ابھی کئی موڑ آنے کی توقع ہے تاہم ایک بات نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے کہ خارجہ امور اور ملکی سلامتی سے جڑے معاملات کو سیاست سے الگ رکھا جانا چاہئے۔سیاست حکمت کے ساتھ اپنا موقف بیان کرنے کا نام ہے نا کہ اپنے جھگڑے بڑھا کر ملک کے لئے خارجی مسائل میں ڈھال دیئے جائیں۔