گزشتہ ایام ہنگامہ خیز رہے ،خطّے کی قدیم درگاہ ، بی بی پاکدامناں کا حرمِ ِاقدس ، جہاں محدود احاطے میں،انتہائی وقیع اور شاندار تعمیرات ظہور پذیر ہوچکی ہیں ، اسلامی فنِ تعمیر کا شہکار ، بین المسالک آہنگی کا عملی مظہر، دوکنال چھ مرلے کا ٹوٹل احاطہ۔ جو ان تعمیرات کے سبب سات ہزار سکوائر فٹ سے بڑھ کر بائیس ہزار سکوائر فٹ تک پہنچ گیا ، جس سے زائرین کی گنجائش میں تین گنا اضافہ ہوگا،یعنی اگر پہلے دو ہزار افراد سما سکتے تھے تو اب یہ تعداد سات ہزار تک پہنچ گئی ۔ ایک سمت اہلِ تشیع کی رسوماتِ پُرسہ و عزاداری کے لیے مختص ہے ، جبکہ اس سے متصل اہل سنت کی نیاز مندی کا اہتمام ہے،جہاں آثارِ قدیمہ کی انتہائی قدیم242مربع فٹ پر محیط مسجد بھی جلوہ آرأ ہے- 23 دسمبر کی شام قصور سے لوٹ رہا تھا ، جہاں سیّد عبد اللہ شاہ گیلانی المعروف حضرت بابا بلھے شاہ قادری شطاری کی درگاہِ مُعلّٰی اور مزار ِ اقدس کا ایک عظیم اور وقیع توسیعی منصوبہ روبہ عمل اور نیسپاک کی کنسلٹنسی اورمحکمہ تعمیر ات ومواصلات اور اوقاف کی سپر ویژن میں جاری ہے ،حضرت باباجی ؒ کے نام کے ساتھ شطاری کا لاحقہ قدرے کم استعمال ہوتا ہے ، جو کہ قادری مشرب ہی کی ایک ذیلی شاخ ہے ، جو بہلول لودھی کے عہد میں معرض ِ وجود میں آیا ، یہ مشرب قدرے اعتدال کا امین تھا ۔ شاہ محمد غوث گوالیاری شطاری سلسلے کے اکابر بزرگوں میں شمار ہوتے تھے ۔ اٹھارویں صدی عیسوی میں قادری بزرگ ریاستی جبر کا شکار ہوئے ، جس کا ایک سبب داراشکوہ تھا ، جس کی وجہ سے اورنگ زیب قادری صوفیوں کے متعلق شاید مختلف رائے کا حامل ہو، جس کا سامنا حضرت بابابلھے شاہ ؒ کو بھی ہوا، اس عہد میں حضرت بابا بلھے شاہ ؒ ، حسینی لب و لہجے کے امین قرار پائے اور آج یہ خطّہ ان کے نام سے موسوم اور منسوب ہوا، بہر حال ---مطلع کیا گیا کہ رات گئے وزیر اعلیٰ پنجاب بی بی پاکدامناں کے مزار کی حتمی انسپکشن کے لیے پہنچ رہے ہیں ۔شب کے آخری پہر تک یہ خوشگوار ڈیوٹی انجام پذیر ہوتی رہی ۔ نیئر علی دادا خطّے میں اسلامی طرز ِ تعمیر کے نمائندہ ماہرتصور ہو تے ہیں ۔ انہوں نے یقینا اس ڈیزائن کی خونِ جگر سے آبیاری کی اور نقش و نگار میں دلأ ویزی کا اتار۔ اس مزار کی تعمیر و ترقی میں طویل عرصے تک بہت سی رکا وٹیں حائل رہیں، مختلف دھڑے بندیاں ، جتھے برداریاں اور عدالتی چارہ جوئیاں برسر پیکار رہیں اور ساتھ ساتھ کام کی رفتار اورمعیار میں بھی توازن ، ترتیب اور تسلسل برقرار رہا ، جس کا کریڈٹ طویل عرصے تک سیّد محسن رضا نقوی کے سَر سجا رہے گا۔ سال 2006ء میںاس پراجیکٹ کی ابتداہوئی تھی ، کتنی ہی کمیٹیاں ، فورم، کمیشن ، ٹرسٹ تشکیل پائے، اکھاڑ پچھاڑہوئی ۔ بس قدرت جس سے کام لینا چاہے ، وہ اُسے شوق، نیاز اور عجز عطا کر دیتی ہے ۔ علی الصبح پاکپتن شریف کے لیے روانگی تھی ، جہاں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ کی خانقاہ ِ معلّٰی کی تزئین وآرائش کا آغاز ہوچکا تھا ۔آپؒ کے داماد اور خلیفہ خاص سیّد بدر الدین اسحاق ؒ، جن کا مزار آپؒ کے آستاں کے قریب ، بجانب شمال مشرق ، ڈھکی پر ہی واقع ہے اور ان ایام میں ان کا سالانہ عرس بھی روبہ انعقاد تھا ، کی زندگی کا بیشتر حصّہ حضرت بابا ؒکی مصاحبت و مجالست میں بسر ہوا، اپنی اس طویل رفاقت کا نچوڑ یوں دیاکہ میرے شیخ’’درویش بے ریا‘‘تھے ۔ یہ امرمستندقرار پا یاکہ بوقت وفات بابا فریدؒ ، دنیاوی سازو سامان سے اس قدر بے نیاز تھے کہ گھر میں کفن و دفن کے لیے بھی کچھ نہ تھا ، مرید ِ خاص سیّد کرمانی نے سفید چادر کا اہتمام کر کے ، ذمہ داری ادا کی ۔ حجرے کا دروازہ اکھیڑ کر تربت کے لیے کچی اینٹوں کا بندو بست ہوا۔ بابا فریدؒ ، جب تک حیات تھے ، پکّے مکان کے اہتمام و انصرام سے اجتناب فرمایا ، ایک مرید صادق پکے حجرے کی تعمیر کے لیے بضد تھا ، مگر نوبت نہ آئی ، ساری زندگی فقر و درویشی میں بسر کرنے والے اور ’’ زُہد الانبیأ‘‘ کے لقب سے معروف ہونے وا لی، اس ہستی کی خانقاہ کی تعمیرات کے لیے فیروز شاہ تغلق جیسے شہنشاہ سے لے کر عصرِرواں کے حکمرانوں تک ، کچھ نہ کچھ نذر پیش کرنے کے لیے بے چین و بے تاب رہے ، لیکن ہر ایک کو یہ سعادت بھی میسرنہیں ہوتی ۔بات کی طوالت کا اندیشہ ہے وگرنہ اس مقام پر زیادہ دیر رکتا ، بس حضرت بابا ؒ کا ایک شعر لازم ہے :۔ بقدر رنج یا بی سروری را بشب بیدار بودن مہتری را یعنی تمہاری عزت افزائی تمہارے کام میں لگن اور محنت کے مطابق ہوگی ۔ شب بیداری عظمت کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔ یہ امر از حد سعادت آفریں بھی ہے کہ اس قدر عظیم توسیعات و تعمیرات میں ایک ہیچمدان ، جو کسی طرح کے ہنر اور فن سے آگاہ نہیں ، ایسی ذمہ داریوں سے متصف ہوا۔ راستے میں تھا کہ شام چھ بجے 7۔کلب روڈ میں منعقدہ ،ایک اجلاس میں شرکت کے لیے مطلع ہوا، ایجنڈا بھی خیر آفریں تھا کہ یہ جو عظیم تعمیرات تکمیل پذیر ہورہی ہیں ، ان کی مینٹینس کس طرح ہونی چاہیے ، درا صل ہم اعلیٰ معیار کی حامل بلڈنگیں تعمیر کر لیتے ہیں ، مگر ان کی دیکھ بھال کے لیے لائحہ عمل موجود نہیں ہوتا ، ہمارے زائرین، جن میں مختلف سوچ اور رنگ کے لوگ موجود ہوتے ہیں ، وہ قیمتی ٹوٹیوں اور لنگر کی پلیٹوں کو تبرک کے طور پر ساتھ ہی لے جاتے ہیں۔یہ المیہ بھی ہے کہ ایسے مقامات پر گلاس اور لوٹے کو محفوظ کرنے کے لیے بالاخر زنجیرسے باندھنا پڑتا ہے اور اگر جوتا نظر سے اوجھل ہوجائے تو پھر ---چنانچہ بی بی پاکدامناں کے مز ار کے وزٹ کے دوران ہی یہ تجویز پیش ہوگئی تھی کہ اس قدر اعلیٰ ، عمدہ اور خوبصورت عمارت کی دیکھ بھال کا بھی ابھی سے مناسب و موزوں بندوبست لازم ہے ۔ چنانچہ اس سوچ و بچار کے لیے وزیر اعلیٰ آفس مستعد اور متعلقہ ادارے الرٹ ہوئے ۔ پاکپتن شریف کا سفر ہمیشہ عقیدت و محبت کے رچائو اور ٹھہرائو میں ہوتا ہے ، تاہم منصبی ذمہ داریوں کے تقاضے کا نبھا بھی لازم۔ سُبک رفتار ہوا ،ابھی واپسی کے سفر آغاز ہی تھا کہ آگاہ کیا گیا کہ کل 25 دسمبر ہے ، حضرت عیسیٰ ؑ کا یوم ِ ولادت اور مسیحی بھائیوں کی عید کا تہوار بھی، خطّے میں کرسچن کمیونٹی جو وطن ِ عزیز کی تعمیر و ترقی میں ہمیشہ اپنے حصّے کا کردار ادا کر تی اور بین المذاہب ہم آہنگی کی داعی اور مسلم دینی زعما کے ساتھ شانہ بشانہ اور حکومت کے دست و بازو بنتے ہیں ، صوبائی حکومت کو ان کی ان خوشیوں میں شریک ہونا چاہیے ۔چنانچہ بشپ آف لاہور ندیم کامران کے کیتھڈرل چرچ ، مال روڈ ،لاہور کی وسیع و قدیم عمارت میں وزیر اعلیٰ صاحب اپنی پوری ٹیم کے ساتھ مدعو ہوئے ۔ یہ سرگرمیاں رات گئے تک جاری رہیں ، 25 دسمبر آرچ بشپ سبسٹین شاکے ریگل چوک میں اور پھر 8۔ کلب کے سبزہ زار پر بابا ئے قوم حضرت قائد اعظم کے یوم ولادت کے سلسلے میں کیک کاٹنے کی تقریب سہ پہر تین بجے ہوئی اور شام کو میثاق سنٹر کا افتتاح وزیر اعلیٰ پنجاب نے تمام مذاہب کے لیڈروں کے ساتھ مل کر کیا ۔