آج سولہ دسمبر ہے، ملکی، قومی اور ملّی تاریخ کا ایک درد انگیز اور حسرت آمیز دِن--- نصف صدی قبل، آج ہی کے دن بھارتی ایسٹر کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اترے، بنگالی مردوں اور عورتوں نے’’نجات دھندہ‘‘ کے طور پر، اس کا استقبال کیا، پھولوں کے ہار پہنائے، گلے لگایا، تشکر و امتنان کے داعیے فراواں ہوئے، پاکستانی فوج کے کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ جنرل امیر عبد اللہ خاں نیازی نے آگے بڑھ کر فوجی انداز میں انہیں سلیوٹ کیا، پھر ہاتھ ملایا اور یہ دلدوز منظر تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہوگیا۔یہ وہی صاحب تھے، جو متعدد بار اعلان کر چکے تھے، کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو میدان کارزار بھارت کی سرز مین بنے گی۔ وہ اسی ہیجانی کیفیت میں کبھی آسام اور کبھی کلکتہ پر قبضہ کرنے کی دھمکی دیتے، ان کے ایک کولیگ نے، جب ان سے ایسی بے پَر کی نہ اڑانے کیا مشورہ دیا،،،کہ اس سے بے جا توقعات بندھتی اور بڑھتی ہیں، جنہیں پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا، تو اس پر انہوں نے ایک رٹا رٹایا جملہ دھرایا کہ: ’’دھوکہ دہی بھی جنگ جیتنے کا ایک گر ہے،خواہ شیطانی سہی‘‘ بہرحال،آج کے دن،فاتح اور مفتوح، بنگالیوں کی موجودگی میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے، ان کے دلوں میں ایک کے لیے انتہائی نفرت اور انتقام اور دوسرے کے لیے تشکر اور احسان مندی۔ جنرل نیازی اور جنرل اروڑہ وہاں سے سیدھے رمناریس گراؤنڈ، جو سہروردی گراؤنڈ کے نام سے بھی معروف تھی، پہنچے، جہاں سرِ عام پاکستانی کمانڈر سے ہتھیار ڈلوانے کی تقریب منعقد تھی،جسے دیکھنے کے لیے سارا شہر آمڈ آیا تھا۔ اس ہجوم میں، بمشکل ایک چھوٹی سی میز کی جگہ بچی تھی، جہاں لاکھوں بنگالیوں کے سامنے جنرل نیازی نے سقوطِ مشرقی پاکستان کی حسب ذیل دستاویز پر دستخط کیے۔ ’’پاکستان ایسٹرن کمان نے مشرقی محاذ ہندوستان اور بنگلہ دیش کی فوجوں کے جنرل آفیسر کمانڈنگ انچیف لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیارڈالنا منظور کرلیا ہے۔ اس سپر اندازی کا اطلاق بنگلہ دیش میں موجود پاکستان کی تمام مسلح افواج پر ہوگا۔ جن میں پاکستان کی بری، فضائی اور بحری افواج نیم عسکری تنظیمات اور سول آرمڈ فورسز شامل ہیں۔ افواج کی جو نفری جس مقام پر موجود ہے، اسی مقام پر لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کی زیر ِ کمان باقاعدہ انڈین آرمی کے قریب ترین دستوں کے سامنے ہتھیار ڈالے گی۔اس دستاویز پر دستخط ثبت ہونے کے فوراً بعد پاکستان کی ایسٹرن کمان لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے احکام کے تحت آجائے گی۔’’دستاویز سقوط‘‘کی دفعات کے معانی یا توجیحات میں کوئی شبہ پیدا ہونے کی صورت میں لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کا فیصلہ آخری ہوگا۔ لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ یہ ضمانت دیتے ہیں کہ جو سپاہی ہتھیار ڈالیں گے ان سے عزت و احترام کا وہی سلوک کیا جائے گا، جس کے وہ جنیوا کنونشن کی دفعات کی رو سے مستحق ہیں۔ نیز پاکستا ن کی جو فوجی اور نیم فوجی نفری ہتھیار ڈالے گی ان کی سلامتی اور بہبود کی ضمانت بھی دی جاتی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کی ماتحت فوج غیر ملکی باشندوں، نسلی اقلیتوں اور مغربی پاکستان کے باشندوں کی حفاظت کریں گی۔‘‘ اس کے بعد،جنرل نیازی نے اپنا ریوالورنکال کر، جنرل اروڑہ کو پیش کر کے،سقوطِ ڈھاکہ اور اور سقوطِ مشرقی پاکستان پر آخری مہر ثبت کردی۔ اس موقع پر جنرل اروڑہ نے پاکستانی سپاہیوں کی ایک گارڈ آف آنر کا بھی معائنہ کیا، جس کا سادہ سا مفہوم یہی تھا کہ اب آنر اور عزت و اعزاز انہی کو سزاوار ہے۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان میں تعینات پاکستانی فوج، قانونی طور پر جنگی قیدی بن کر جنرل اروڑہ کے زیر کمان آگئی۔ بھارت مالِ غنیمت سے فرصت پا کر، جنگی قیدیوں کی طرف متوجہ ہوا، جو نوے ہزار پہ مشتمل تھے۔ جن میں کئی اہم شخصیات بھی شامل تھیں، جن میں جنرل نیازی، جنرل فرمان، جنرل جمشید، ریئر ایڈ مرل شریف اور ایئر کموڈور انعام الحق بطورِ خاص شامل تھے، جن کو یقینی طور پر بھارت منتقل ہونا تھا، ان وی آئی پیز کو ایک بار بردار طیارے کے ذریعے 20 دسمبر کو کلکتہ پہنچادیا گیا، جہاں ’’ فورٹ ولیم‘‘کی تاریخی عمارت، ان کا مسکن تھا۔ صدیق سالک،جو اِن اسیروں کے ساتھ، اس مقام پر موجود تھے، وہ کہتے ہیں کہ ہم یہاں اکٹھے تھے اور ایک دوسرے سے مل لیتے تھے۔ فرصت کے ان ایام میں مَیں نے جنرل نیازی سے انٹرویو کیا تاکہ سقوطِ ڈھاکہ کے متعلق ان کے تاثرات حاصل کرسکوں۔ ان دنو ں ابھی زخم تازہ تھے۔ حمو د الرحمن کمیشن کا نام و نشان تک نہ تھا۔ جنرل نیازی نے اپنا ’’دفاع‘‘پیش کرنے کے لیے ابھی حقائق کو توڑ موڑکر پیش کرنا شروع نہیں کیا تھا۔ وہ مجھ سے آزاد انہ گفتگو کرتے رہتے۔ ان کے ضمیر پر کسی قسم کا بوجھ نہیں تھا۔ وہ اپنے آپ کو اِس سارے المیّے سے بَری الذّمہ سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار جنرل یحییٰ خاں ہے۔ اس تاریخی انٹرویو کے موٹے موٹے سوال و جواب یہ تھے: سوال:کیا آپ نے جنرل یحییٰ یا جنرل حمید کو کبھی صاف صاف بتایا تھا کہ آپ کوجو وسائل دیے گئے ہیں، وہ مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے ناکافی ہیں؟ جواب:کیا وہ سویلین ہیں؟کیا انہیں نہیں معلوم کہ اندرونی اور بیرونی خطرات سے مشرقی پاکستان کو بچانے کے لیے تین انفنٹری ڈویژن ناکافی ہیں؟ سوال:مگر یہ الزام تو ہمیشہ آپ ہی پر رہے گا کہ آپ مشرقی پاکستان کا دفاع نہ کر سکے۔اگر کم وسائل کے پیش نظر آپ کے خیال میں دفاعی قلعوں والی اسٹریٹیجی بہترین حکمت عملی تھی، تو کیا وجہ ہے کہ آپ نے ڈھاکہ کو دفاعی قلعہ نہ بنایا، جہاں فوج کی ایک کمپنی بھی نہ تھی؟ جواب:یہ سب ان کا قصور ہے، انہوں نے مجھے نومبر کے وسط میں آٹھ پلٹنیں بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر صرف پانچ بھیجیں۔ مَیں باقی تین کا انتظام کرتا رہا کہ وہ آئیں تو انہیں ڈھاکہ کے دفاع کے لیے استعمال کروں گا۔ سوال:لیکن 03 دسمبر کو جب آپ پر واضح ہوگیا کہ اب مزید نفری آنی نا ممکن ہے تو آپ نے کیوں نہ اپنے وسائل میں سے کچھ جمعیت ڈھاکہ کے لیے مخصوص کر لی؟ جواب:دراصل اس وقت حالات ایسے ہوگئے تھے کہ کسی محاذ سے ایک کمپنی بھی نکالنا مشکل تھا۔ سوال:جو تھوڑے بہت وسائل آپ کے پاس ڈھاکہ میں موجود تھے، اگر آپ ان کو بھی صحیح طور پر استعمال کرتے، تو جنگ کچھ دن اور جاری رہ سکتی تھی۔ جواب:مگر اس کا کیا فائدہ ہوتا؟ڈھاکہ کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی، گلیوں میں لاشوں کے انبار لگ جاتے، نالیاں اَٹ جاتیں، شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی۔ لاشوں کے گلنے سڑنے سے طاعون اور دوسری بیماریاں پھوٹ پڑتیں۔ اس کے باوجود انجام وہ ہوتا! مَیں نوّے ہزاربیواؤں اور لاکھوں یتیموں کا سامنا کرنے کے بجائے نوّ ے ہزار قیدی واپس لے جانا بہتر سمجھتا ہوں۔ سوال:اگرچہ انجام وہی ہوتا!مگر تاریخ مختلف ہوتی، اس سے پاکستان کی عسکری تاریخ میں ایک سنہرا باب لکھا جاتا۔ آئندہ دشمن کو ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ ہوتی۔ جنرل نیازی خاموش رہے!