پنجاب کے کچھ اضلاع میں سموگ کی وجہ سے چار دن تک سمارٹ لاک ڈاؤن لگا یا گیا ۔ اگرچہ حالیہ بارشوں نے لاہور سے سموگ کو فی الحال غائب کر دیا ہے اور عالمی ائیر انڈیکس میں دوسرے سے چھٹے ساتویں نمبر پر آگیا ہے۔ لیکن چند دن بعد دوبارہ سموگ کا زہر فضا میں پھیلنے لگے گا۔ لاہور ، قصور اورگرد و نواح میں شدید سموگ کی وجہ سے متعدد بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ کھانسی، آنکھوں میں الرجی اور سانس لینے میں دشواری جیسے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ نیز سردیوں کی آمد نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے اور نزلہ، زکام، کھانسی، گلے اور آنکھوں کے امراض بڑھ رہے ہیں۔ حکومت پنجاب نے سکول ، کالج اور یونیورسٹیوں کو بند کرنے کے ساتھ عوامی مقامات پر ماسک پہننے کو لازمی قرار دیا ہے۔ لہذا سموگ سے متاثرہ علاقوں میں بلا ضرورت گھر سے نکلنے سے گریز کریں اور بازار وغیرہ میں ماسک کا استعمال ضرور کریں۔ لیکن ہم سبھی جانتے ہیں کہ لاک ڈاؤن یا ماسک پہننا کوئی دیر پا حل نہیں ہے۔ سموگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے حکومت کو طویل المدتی منصوبہ بنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی ادارے بند کر دینے سے صرف طلباء و طالبات کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے جبکہ بازار، مارکیٹ اور دیگر عوامی مقامات کھلے رہنے سے کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہورہے۔ عوام کی اکثریت اپنے روزمرہ امور سر انجام دینے کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ یا پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ گاڑیاں ، موٹر سائیکل ، رکشوں کی بھرمار ، دھواں چھوڑتی ویگن اور بسوں کا اژدھام ماحولیاتی آلودگی میں مسلسل اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ نیز لاہور جیسے گنجان آباد شہر میں درختوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ سموگ میں اضافے کی ایک وجہ بھارتی شہروں سے آنے والے دھوئیں کو بھی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ فصلوں کی کٹائی کے بعد کسان کھیتوں میں آگ لگا دیتے ہیں جو بڑے پیمانے پر فضائی آلودگی اور سموگ کا باعث بن رہی ہے۔ اس ضمن میں حکومت پنجاب نے ہیلتھ ایمرجنسی تو نافذ کر دی ہے لیکن دیر پا اقدامات ابھی تک نہیں اٹھائے جا سکے۔ وطن عزیز کے مسائل میں آبادی ایک بہت بڑا اور سنگین مسئلہ ہے۔ صرف لاہور کی بات کریں تو اندازاً اس وقت گیارہ ملین کی آبادی کیساتھ پنجاب کا سب سے بڑا شہر ہے۔ صرف لاہور شہر میں تقریباً سات ملین گاڑیاں اور چھ ملین موٹر سائیکل موجود ہیں۔ ان میں ہزاروں نہیں لاکھوں گاڑیاں، موٹر سائیکل اور بسیں دھواں اگلتی ہیں اور فضا کوزہر آلود کرتی ہیں، بس اور رکشہ ڈرائیورز اس کام میں سب سے آگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نومبر اور دسمبر میں سموگ کے علاوہ گاڑیوں کے دھوئیں سے بھی فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس مسئلے کے دیرپا حل کے لیے حکومت کو چاہیے کہ ایسی گاڑیوں پر فی الفور پابندی عائد کرے۔ کالا دھواں چھوڑتی تمام ٹرانسپورٹ پر بھاری جرمانے اور پابندی عائد کرے۔ خصوصاً موٹر سائیکل اور رکشہ ڈرائیوروں کے لیے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔ لاہور میں چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد دوگنی کر دی جائے۔ آبادی کے لحاظ سے میٹرو بس اور اورنج ٹرین کی استعداد بہت کم ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے زیادہ ہونے سے عوام کی اکثریت زیادہ سے زیادہ انہیں استعمال کرے گی نیز پرائیویٹ گاڑیوں کے استعمال میں بھی کمی واقع ہوگی۔ فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگائے جائیں ۔ شہر میں جابجا کچرے اور کوڑے کے ڈھیر پر بھی توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے۔ سموگ اور فضائی آلودگی دونوں پر قابو پانے کیلیے فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ محض تعلیمی ادارے بند کر دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ شہر کی فضا کو صاف ستھرا رکھنے، ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے درختوں اور جنگلات میں اضافہ، عوامی مقامات کی صفائی ستھرائی پر توجہ اور فضا کوزہر آلود کرتی ٹرانسپورٹ پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔ ان تمام عوامل پر مل کر کام کیا جائے تو یقیناً کچھ ہی عرصے میں ہم واضح اور نمایاں تبدیلی دیکھیں گے۔ دنیا بھر میں بڑھتی فضائی آلودگی میں کئی عوامل کار فرما ہیں جن میں گاڑیوں کا بے جا استعمال ، کچرے، پلاسٹک اور درختوں کو اگ لگانا، جنگلات میں بتدریج کمی ، صحت مند طرز زندگی کا متروک ہونا اور صنعتی علاقوں اور فیکٹریوں سے زہریلے مواد کا اخراج اور موسمیاتی تبدیلیاں شامل ہیں۔ اگر ہم اپنے طرز زندگی میں صحت مندانہ اقدامات کریں ، گاڑیوں کی بجائے پیدل چلنے کو ترجیح دیں، صحت مند فضا قائم رکھنے کیلئے درختوں اور جنگلات کی پیداوار پر دھیان دیں ، اپنی گاڑیوں کی مناسب دیکھ بھال اور مرمت پر خاص توجہ دیں، پلاسٹک کا استعمال ترک کردیں تو خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں کوڑے اور کھیت کھلیانوں کو آگ لگانے پر سخت پابندی اور بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔ نیز الیکٹرانک مشینری کا استعمال بھی حتی الامکان کم کیاجائے جوکام ہم بآسانی ہاتھ سے کرسکتے ہیں وہاں مشینوں کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ بحثیت ذمہ دار شہری ہونے کے ہر ایک پاکستانی کا یہ فرض ہے کہ وہ سموگ اور فضائی آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اور حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرے۔ ایک بات فکرانگیز ہے کہ حکومت نے تعلیمی ادارے تو بند کر دئیے ہیں لیکن فیکٹریاں اور کاروباری مواقع کھلے رکھے ہیں، تعلیمی ادارے تو آمدورفت کے لیے بسوں کا استعمال کرتے ہیں تاہم یہاں حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے تمام نجی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی عائد ہونی چاہیے تاکہ سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک کم ہو سکے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ دھواں اور کیمیکل چھوڑنے والی فیکٹریوں کی اوقات منتخب کر دئیے جائیں۔ اس سے بھی کافی حد تک فضائی آلودگی پر قابو پایا جا سکتا ہے، میری رائے میں تعلیمی اداروں کو بند کر دینا کسی طور پر دانشمندانہ فعل نہیں ہے، بہتر منصوبہ بندی اور اداروں کی مشاورت سے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے، اسلام آباد آبادی اور ماحول کے اعتبار سے لاہور کیا دنیا کے کئی شہروں سے بہتر ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مارگلہ کی پہاڑیوں پر بھی ہر وقت دھند اور دھواں سا چھایا رہتا ہے اور حد نگاہ دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔