سمندری طوفان سے کراچی خطرے میں ہے۔ سمندری طوفان کے ساتھ تیز ہوائیں ہیں۔ ٹھٹھہ میں دو دیہات ڈوب گئے۔ حکومت سندھ کی طرف سے ساحلی علاقے خالی کر الیے گئے ہیں اور سیاحوں سے کہا گیا ہے کہ وہ سمندر کا رخ نہ کریں۔ سمندری طوفان سے کراچی اور دیگر ساحلی علاقوں میں خطرات موجود ہیں۔ لوگوں میں خوف و ہراس کی کیفیت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ طوفان بائپر جوائے کے اثرات آنا شروع ہو چکے ہیں۔ سمندر کی اپنی ایک دنیا ہے، جسے دیکھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سائنسدانوں کو اپنی تحقیقات سے مستقبل کے منصوبوں کی سفارشات کرنی چاہئیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں 8 جون کو سمندروں کا عالمی دن منایا گیااور دنیا بھر میں کانفرنسیں اور سیمینارز منعقد ہوئے۔ پاکستان میں اس سلسلہ میں زیادہ تعداد میں سیمینارز اور ورکشاپس منعقد نہ ہو سکے۔ کہا جاتا ہے کہ پانی کا نام زندگی اور زندگی کا نام پانی ہے۔ انسانی زندگی میں پانی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ دنیا کا بیشتر حصہ پانی پر مشتمل ہے‘ البتہ قلیل حصہ خشکی کا ہے۔ اس کے باوجود پانی کے مسائل ہیں نہ صرف پانی کیلئے صاف پانی دستیاب نہیں بلکہ زراعت کیلئے بھی پانی نہیں مل رہا۔ پاکستان خوش قسمت ہے کہ اسے سمندر کا قرب حاصل ہے۔ کراچی بندرگاہ کے بعد ایک اور بڑی بندرگاہ گوادر بھی بن گئی ہے مگر پانی کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ سمندر صرف آبی جانوروں کی زندگی کا نام نہیں بلکہ انسان بھی خوراک کے علاوہ بہت کچھ سمندوں سے حاصل کرتے ہیں۔ آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر ہماری زمین کا دل اور پھیپھڑے ہیں کہ یہ زمین پر استعمال ہونے والا چالیس فیصد تازہ پانی کیساتھ ساتھ 75 فیصد آکسیجن دنیا کو مہیا کرتے ہیں جس سے ہم سب سانس لے رہے ہیں۔ سمندر کو زندگی اس بناء پر بھی کہا جاتا ہے کہ سانس کا نام آکسیجن ہے۔ پانی کی کمی کے حوالے سے اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ستلج کی بندش سے بہت مسائل پیدا ہو چکے ہیں اور پوری تہذیب مر رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دریائے ہاکڑہ خشک ہوا تو کمی کسی حد تک ستلج نے پوری کی اور ستلج پر ہیڈورکس سلیمانکی ، اسلام اور پنجند بنائے گئے ۔ ان ہیڈورکس کی تعمیر کیلئے نواب آف بہاولنگر نے ریاست کے اہم ضلع بہاولنگر کو رہن رکھ کر بینک کے معرفت انگریز سرکار سے قرض حاصل کیا ۔ ہاکڑہ خشک ہوا اس کی کمی کسی حد تک ستلج نے پوری کی اب ستلج بند ہوا ہے تو اس کی کمی کون پوری کرے گا؟ سمندروں کا عالمی دن منانے والوں کو اُن علاقوں کی طرف بھی دھیان دینا ہو گا جہاں سمندر نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے مسائل ہیں اور لوگ پیاس سے مر جاتے ہیں۔ یہ صرف خالی بات نہیں بلکہ چولستان میں ایسا ہو رہا ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کا نہری نظام دنیا کا بہترین نہری نظام تھا مگر دریائے ستلج کی فروختگی کے بعد آج ہر طرف ویرانی نظر آتی ہے۔ سابق ریاست بہاولپور میں سب سے پہلا متاثرہ ضلع بہاولنگر ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ریاست بہاول پور کے بعد بہاولنگر کی بجائے منچن آباد کو ضلعی حیثیت حاصل تھی ۔ کرنل منچن کے نام سے موسوم منچن آباد کی بنیاد 1867ء میں رکھی اور یہ شہر تین سالوں یعنی 1870ء میں مکمل ہوا ، یورپین طرز پر بسائے گئے منچن آباد سڑکیں بازار اور گلیاں سیدھی بنائی گئیں ۔ شہر کے چار دروازے بہاولپوری ، بیکانیری ، لاہوری اور دہلی دروازوں کے نام سے موسوم ہوئے ۔ بہاولنگر کو نظامت کا درجہ حاصل ہوا تو منچن آباد کی ضلعی حیثیت ختم ہوئی ۔ منچن آباد کے قدیم لوگ اب بھی پرانے وقتوں کو یاد کرتے ہیں ۔تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں ، ہزاروں مسائل اور ہزاروں دکھ ہیں ، کس کس کا ذکر کریں۔ جب تک صوبہ نہیں بنے گا ، وسیب کے مسئلے حل نہیں ہونگے اور سرائیکی صوبہ اس وقت تک نہیں بنے گا جب تک خطے مین بسنے والے لوگ ملکر جدوجہد نہیں کریں گے ۔ باقی سب کام ہو رہے ہیں مگر ڈیموں کی تعمیر کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی اور آبپاشی کے مسائل کو سیاسی مسائل میں تبدیل کیا گیا ہے جو کہ درست نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ کالا باغ ڈیم سرائیکی وسیب میں بننا ہے ‘ مگر اس کا سندھ کو بھی اتنا ہی فائدہ ہے جتنا کہ سرائیکی وسیب کو۔پانی کے مسئلے پر سرائیکی وسیب کا پہلے بھی بہت زیادہ استحصال ہو چکا ہے ‘ 1990ء میں نواز شریف نے پانی کی تقسیم کا معاہدہ کیا تو سرائیکی وسیب کے پانی کا حصہ سندھ کو دیکر نعرہ لگایا کہ بڑا بھائی پنجاب قربانی دے رہا ہے۔ سرائیکی وسیب جسے پانی کے مسئلے پر فریق تسلیم نہیں کیا جارہا ،ڈیموں کی تعمیر کیلئے اس کی قر بانیاں سب سے زیادہ ہیں، سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو دئیے گئے تین دریائوں کی رقم سے منگلہ اور تربیلہ ڈیم بنائے گئے اس سے 80 ہزار ایکڑ سے زائد کا رقبہ متاثر ہوا ۔او ر اب بھی چولستان میں تربیلہ ڈیم کے متاثرین اور منگلہ ڈیم کے متاثرین کے چکوک موجود ہیں۔ حرف آخر کے طور پر یہی عرض کروں گا کہ اقتدار کی لڑائی ختم کرکے قومی معاملات کی طرف توجہ دی جائے۔ وقت بدل رہا ہے، حالات بدل رہے ہیں، موسم بدل رہے ہیں، تغیرات زمانہ کے ساتھ ساتھ ہمارے سیاستدانوں کو بھی اپنی سوچ تبدیل کرنی چاہئے۔ 8 جون کو جس طرح سمندروں کا عالمی دن منایا گیا اسی طرح 5 جون کو پوری دنیا میں ماحولیات کا عالمی دن منایا گیا۔ پانی اور ماحول کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس وقت سمندری پانی اور اس میں موجود نباتات اور حیوانات کو مختلف ملکوں کے ساحلی شہروں سے کیمیاوی اور دوسرے مضر اجزاء کا سامنا ہے جو کہ آبی حیات کیلئے خطرات ہیں ۔اگر توجہ دی جائے تو سمندر کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ اسے میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ توانائی بھی اس سے حاصل ہو سکتی ہے اور سمندروں میں بہت بڑی تعداد میں معدنی ذخائر بھی موجود ہیں جو کہ انسانیت کی فلاح کے کام آسکتے ہیں مگر یہ کیسے ہو گا؟ پاکستان میں تو دریا پر ایک پل مشکل سے بنتا ہے جبکہ ترقی یافتہ دنیا نے سمندروں میں زیر زمین شاہرات قائم کر دی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ سارے کام چھوڑ کر پاکستان کی ترقی اور تعلیم پر توجہ دی جائے۔