شہباز حکومت کو آئے ایک سال ہو گیا ہے اور وزیر اعظم اپنی حکومت کی کارکردگی بتا رہے تھے کہ کس طرح پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر نکل آیا ہے۔ اب ان کی بات کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی بندہ کہے کہ باہر چمکدار دن نکل آیا ہے اور بندہ باہر جا کے دیکھے تو پتہ چلتا ہے کہ ساری رات سے بارش ہو رہی ہے اور سورج نکلنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ کوئی پانچ ماہ پہلے کی بات ہے ڈارکو پاکستان کا وزیر خزانہ بنایا گیا تو انہوں نے آتے ہی کہا کہ ڈالر کی قیمت جلد دو سو سے کم ہو جائے گی۔ مگر ڈالر نے ڈار کی ایک نہیں سنی اور 300 کے قریب پہنچ چکا ہے۔ موجودہ حکومت کو دیکھ کر اس ٹیم کا خیال آتا ہے جو میچ کے دوران بڑی تیزی سے تبدیلیاں کر رہی ہوتی ہے کہ شاید کھیل کا رخ بدل جائے مگر مخالف ٹیم پر اسکا کچھ اثر نہیں ہوتا اور گول پے گول ہوتا رہتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اور تو کچھ نہیں کیا البتہ بیان بازی میں اس کی کارکردگی بہت اچھی ہے۔ جب کبھی پاکستان مسلم لیگ کے ترجمان تھکتے ہیں تو بلاول بھٹو میدان میں آجاتے ہیں۔اس حکومت کو دیکھ کر 1998ء کی برازیل کی فٹ بال ٹیم یاد آجاتی ہے۔ اس ٹیم میں بہت بڑے بڑے کھلاڑی تھے ایک سے بڑھکر ایک۔کافو، رابرٹو کالوس، ریوالڈو، رینالڈو، بیبیٹو اور اس ٹیم کا کپتان تھا ڈئنگا۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ ٹیم ہار سکتی ہے۔ فرانس کی ٹیم جو اس دن برازیل کے مد مقابل تھی اس میں زیدان کے علاوہ ایک ادھ اور کھلاڑی تھا جس کو سٹار کہا جا سکے، برازیل کی ٹیم کو صرف سیمی فائنل میں ہالینڈ نے کچھ ٹف ٹائم دیا تھا جبکہ فرانس ، ناک آؤٹ سٹیج کے پہلے دونوں مرحلوں میں بمشکل جیتا تھا۔ اس دن فرانس نے برازیل کو صفر تین سے ہرا دیا۔ زیدان نے اس دن برازیل کے سپر سٹار کی ایک نہیں چلنے دی۔ اب ہم آتے ہیں موجودہ اتحاد کی طرف جس میں پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت جس کی تجربہ 38 سال کا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جناب آصف علی زرداری، بلاول بھٹو ، مولانا فضل الرحمان ، مریم نواز اور حمزہ شہباز کی صورت میں پاکستان کی سیاست کی ماضی، حال اور مستقبل سب ایک جگہ اکھٹا ہو گیا تھا۔ مقتدر حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مگر عمران کی صورت میں جس زیدان کا اس حکومت کو سامنا ہے۔ اس نے ان سب بڑے بڑے سیاستدانوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ 1970ء سے لیکر 2018ء تک الیکشن جیتنے والی پارٹیا ں الیکشن کے نام سے اس طرح بھا گ رہی ہیں جیسے کوا غلیل سے بھا گتا ہے۔ اب بہانے بہانے سے الیکشن سے فرار کا سوچا جا رہا ہے۔ آج کل جو صورتحال ہے اس کا موانہ کسی پہلے دور سے نہیں ہو سکتا۔ ناں تو آج 1997ء ہے جہاں آپ سپریم کورٹ پر حملہ کروا دیں اور اس چیف جسٹس کی چھٹی کروا دیں۔ اور ناں ہی اب 1993ء ہے جہاں غلام اسحاق خان جیسا وضعدار آدمی آپکا مخالف ہو۔ یہ 2023 ء ہے یہاں پر پاکستان مسلم لیگ نواز کا سامنا عمران خان سے ہے جو سیاست کے میدان میں بالکل نو وارد ہیں اور دوسری طرف چیف جسٹس ہیں جوآج سجاد علی شاہ کی طرح تنہا نہیں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ انٹر نیٹ کا دور ہے ملکی اور غیر ملکی سب ذرائع ابلاغ تک عوام کی رسائی ہے۔ ایک طرف حکومت اپنی کامیابی کا راگ الاپ رہی ہے اور دوسری طرف ابھی گرمی شروع نہیں ہوئی اور لوڈ شیڈنگ کا عذاب شروع ہو چکا ہے۔حکومت معاشی میدان میں اپنی کامیابی گنا رہی ہے تو دوسری طرف عالمی ذرائع بتا رہے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں افراظ زر اپنے سارے ریکارڈ توڑ چکا ہے۔مجھے کبھی کبھی بڑی حیرانی ہوتی ہے جب میں سوچتی ہوں کہ اگر عمران خان نہ ہوتا تو یہ حکومت اپنی نااہلی کا بوجھ کس کے سر ڈالتی۔ وہ تو شکر ہے کہ عمران خان موجود ہے اور اس کے سر سب الزام دیا جاسکتا ہے۔ کچھ دن پہلے تک لوگ خیال کرتے تھے کہ نواز شریف ملک کا نجات دہندہ ہے جو ملک کو ترقی کی راہ پے ڈال سکتا ہے اب لوگوں کی یہ متھ بھی ٹوٹ چکی ہے اس ایک سال میں سب پالیسی نواز شریف کی چلی ہے اور ملک ہے کہ نیچے سے نیچے جارہا ہے۔ مجھے عظیم باکسر محمد علی کی لائف ہسٹری یاد آرہی ہے۔ محمد علی نے اپنے کیریئر میں 31 مقابلے مسلسل جیتے تھے پہلی شکست محمد علی کو 32 ویں مقابلے میں ہوئی جب اس کو 8 مارچ 1971ء کو جو فییزر نے عالمی اعزاز سے محروم کیا یہ محمد علی کی پہلی شکست تھی۔ اسکے بعد اسنے دس مقابلے جیتے اور 43ویں میچ میں کین نارٹن سے ہار گئے۔ محمد علی نے ہمت نہیں ہاری اور اس نے اپنا اعزاز دوبارہ حاصل کر لیا اس بار اس نے 14 مقابلے مسلسل جیتے تھے۔اپنے کیریر کے 58 ویں میچ میں محمد علی تیسری بار اپنے کیرئر میں ہارے ۔ کچھ دن بعد محمد علی نے لیون سپنکس کو ہرا دیا۔ اب تک محمدعلی تین باکسر سے ہارا تھا۔ کین نارٹن، لیون سپنکس، اور جو فریزیر ۔ بعد میں اس نے ان تینوں کو ہرا دیا۔ اب کہانی کچھ بدلتی ہے محمد علی کا مقابلہ اس بار لیری ہومز سے تھا جو ایک بہت بڑا باکسر تھا۔ لیری ہوم نے اس میچ میں محمد علی کو ناں صرف ہرایا بلکہ ذلیل کر کے رکھ دیا سارے میچ میں محمد علی رنگ میں لیری ہومز سے بچتا پھر رہا تھا۔ اس کے بعد محمد علی نے اپنا آخری میچ ایک گمنان سے باکسر سے لڑا اور ہار گیا۔ اصل کہانی یوں ہے کہ محمد علی کی عمر اب 38 سال ہو چکی تھی۔ محمد علی نے پہلا پروفیشنل مقابلہ 19 سال کی عمر میں جیتا تھا۔ نواز شریف نے بے نظیر، غلام اسحاق، زرداری ، سب کو ہرایا مگر اب 2023 ء ہے اور حالات بدل چکے ہیں۔