اردو کے ممتاز نقاد، ادیب، محقق پروفیسر شمس الرحمن فاروقی مرحوم پر آنے والی نئی کتاب’’ شمس الرحمن فاروقی ،جس کی تھی بات بات میں اک بات‘‘پر گزشتہ روز کے کالم میں بات ہوئی۔ صحافی ، انٹرویور محمود الحسن نے یہ کتاب لکھی ہے، اسے قوسین پبلشر، لاہور نے شائع کیا۔بھارت کے رہائشی شمس الرحمن فاروقی ہمارے ہاں اپنے ناول’’ کئی چاند تھے سرآسماں ‘‘کی وجہ سے مشہور ہوئے، مگر ان کے دامن میں بہت کچھ ہے۔ اس کتاب نے فاروقی صاحب کی فکر، سوچ اور ان کی دانش کے بہت سے جگمگاتے موتیوں سے روشناس کرایا۔ شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں ـ:’’میں یہ رجحان دیکھتا ہوں کہ دونوں ملکوں(پاکستان اور ہندوستان)میں لوگ بہت سے تصورات، صورت حالات کیلئے اردو میں خوبصورت، مناسب اور سجل الفاظ ترک کر کے انگریزی، ہندی یا پنجابی کے الفاظ کہیں کہیں استعمال کرتے ہیں۔ اردو میں تصورات اور جذبات کے اظہار کے لئے الفاظ کی کمی نہیں بلکہ بعض معاملات میں یہ دوسری زبانوں اور انگریزی سے بھی تونگر ہے۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ میری ان سے Casualملاقات تھی۔ کیا اس کے لئے اردو میں لفظ نہیں ؟ آپ اردو میں کہتے سکتے ہیں: یوں ہی ملاقات تھی، سرسری ملاقات تھی، ذرا سی ملاقات تھی ، آنے جانے کی ملاقات تھی ، گاہے گاہے کی ملاقات تھی ، لیکن یہ کہنا کہ یہ Casualملاقات تھی، دراصل یہ صرف سہل انگاری اور اپنی زبان سے غداری ہے۔ ’’عظیم روسی شاعر براڈسکی کہتا ہے کہ اگر سماج شاعری نہ پڑھے گا تو وہ آہستہ آہستہ زوال کے اس مقام پر پہنچ جائے گا جہاں سماج باآسانی کسی جابر مستبد یا بڑھ بڑھ کر جھوٹے دعوے اور دعوے کرنے والے لیڈر (ڈیماگوگ)کے چنگل میں گرفتا ہوجائے گا۔ سوشل میڈیا سے میری واقفیت بہت کم ہے، لیکن جتنی ہے ، اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے اعلیٰ ادب کا فروغ تو دور کی بات ہے، معمولی سنجیدہ ادب بھی نہیں پھل پھول سکتا۔ پہلے زمانے میں بگڑا شاعر مرثیہ گو ، بگڑا گویا مرثیہ خواں کی جو کہاوت تھی،اب وہ ناقص شاعر، فیس بک کا استاد میں بدلتی جا رہی ہے۔ ’’اردو فکشن میں جو بڑے نام کسی وجہ سے دنیا نے طے کر دئیے ہیں، ان سے معاملہ کرنا ضروری ہے تاکہ معلوم ہو کہ انہوں نے نثر کے ساتھ ، واقعات وکردار کے ساتھ کس طرح سے معاملہ کیا ہے۔ یہ کئے بغیر آگے بڑھنے کا راستہ نہیں نکلے گا۔ مثلاً میں نے پریم چند کے افسانے بارہا پڑھے۔ کچھ بالکل معمولی ہیں لیکن پریم چند کو پڑھے بغیر مجھے معلوم نہ ہوتا کہ ان کی کمزوری کیا ہے، مضبوطی کیا ہے، ان کی سٹریٹجی کیا ہے؟ کرشن چند سے مجھے اتفاق نہیں لیکن میں نے انہیں خوب پڑھا ہے کیونکہ فہرست استناد میں ہیں اس لئے مفر نہیں ۔ کسی کو پڑھ کر ہی کہہ سکتا ہوں کہ فلاں مجھے کم اچھے لگتے ہیں، فلاں زیادہ ۔ ’’میر انیس کو ہمیشہ سے چار پانچ بڑے شاعروں میں رکھتا ہوں۔ بنیادی بات رواں کلام ہے۔ یہ بہت بڑی صفت ہے ۔ مصرع کتنا مشکل ہو، کتنا عربی فارسی ہو، کتنا ہندی سندھی ہو، آسانی اور روانی سے ادا ہوجاتا ہے۔ میر انیس کا شاعری میں یہ کمال اپنی جگہ ہے کہ الفاظ کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں۔ کسی سے یہ بن نہیں پڑا۔ مضمون ایک ہے لیکن ہر مرثیہ نیا معلوم ہوتا ہے۔ زبان عام طور پر شاعر پر حاوی ہوجاتی ہے، لیکن میر انیس زبان پر حاوی ہیں۔ ’’منیر نیاز ی کا میں پرانا عاشق ہوں۔ بچوں کو اس کا عاشق بنایا، کلام یاد کرایا۔ واحد شاعر ہے جس پر کسی آدمی کا اثر معلوم نہیں ہوتا۔میرے خیال میں منیر اپنی غزل کے صرف دو شعروں پر ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا ماری جو چیخ ریل نے جنگل دہل گیا صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا ’’احمد مشتاق کی شاعری میں بڑی خوبی ہے کہ وہ دور کی کوڑی نہیں لاتا۔ کبھی کوئی بات براہ راست نہیں کہتا، خوشی ہو یا افتاد، اشارتاً کہتا ہے۔ مثلا پریوں کی تلاش میں گیا تھا لوٹا نہیں آدمی ہمارا پوری زندگی کی ٹریجڈی اسی شعر میں ہے۔ احمد مشتاق کا یہ شعر بھی مجھے پسند ہے کوئی کھڑا تھا درِنیم باز میں چپ چاپ لٹیں کھلی ہوئی ، رخسار تمتمائے ہوئے ’’ ظفر اقبال ہمارے زمانے کے غالباً سب سے بڑے شاعر ہیں۔ جون ایلیا کو میں اچھا شاعر سمجھتا ہوں لیکن جتنا ٹیلنٹ تھا ، اس کا استعمال نہیں کیا۔ تخیل میں وسعت نہیں تھی مثلاً جیسے منیر نیازی اور ظفر اقبال کے ہاں ہے۔ اب ظفر اقبال خود کو دہرا رہے ہیں، ان کا بڑا کارنامہ شروع کے دو مجموعے ہیں۔ کسی آدمی کو قائم رکھنے کے لئے دو مجموعے بہت ہیں۔ ظفر اقبال میں وسعت بے انتہا ہے۔ کسی چیز پر بند نہیں۔ روانی بھی بہت ہے۔ ناصر کاظمی کے شعرکاغذ پر کم، پڑھنے میں زیادہ رواں ہیں۔ انور شعور اچھے شاعر ہیں۔ سلیم احمد محدود نہیں تھے، ہر طرح کا شعر کہہ لیتے تھے ۔ ان کی غزلیں بہت اچھی ہیں زبان میں تجربات بھی ہیں۔ ثروت حسین اور شکیب جلالی بڑے ٹیلنٹ کے شاعر تھے ۔ ’’ منٹو کی میرے دل میں بڑی عزت ہے۔ وہ صحیح معنوںمیں بڑے افسانہ نگار ہیں۔ ان کے بعد مجھے راجندر سنگھ بیدی نظر آتے ہیں۔ ان دونوں کے بعد انتظار حسین ہیں۔ اردو فکشن کی تاریخ میں جتنے بڑے نام لئے جاتے ہیں، ان میں سے اکثرسے انتظار حسین بڑے فکشن نگار ہیں۔ کرشن چندر، قرتہ العین حیدر، احمدندیم قاسمی اور غلام عباس سب بعد میں آتے ہیں۔ نئی نسل کے لوگوں مثلاً انور سجاد اور سریندر پرکاش کی دنیا چھوٹی ہو کر رہ گئی اور وہ ختم ہوگئے ۔ ’’قرتہ العین حیدر اردو فکشن میں اتنی بڑی ہستی نہیں ہیں جتنا انہیں بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن دو چیزوں میں ان کا ثانی نہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ جو فوری طور پر ماضی ہوگیا ہے، چاہے وہ کلونیل ماضی ہو یا تہذیبی یا معاشرتی ماضی اس ماحول، زندگی اور معاشرت کو جتنا اچھا وہ بیان کر سکتی ہیں، اتنا اچھا کوئی اور نہیں بیان کر سکتا۔ ایک بڑی کمی ان میں کردار بنانے کی ہے۔ ان کے ہاں کرداروں کی بہت ورائٹی اور کردار نگاری کا وسیع کینوس ہے لیکن وہ کسی کردار کے پیٹ یا دماغ تک نہیں جاتیں۔ آگ کا دریا ناکامیاب ہے لیکن وہ ایک بڑی ناکامی ہے۔ انہوں نے ایک بڑا جنگل کاٹنا چاہا، لیکن ان سے کٹا نہیں۔ نیئر مسعود کو بہت بڑا افسانہ نگار سمجھتا ہوں ۔ کمی یہ ہے کہ دو چار لائنیں ان کے پاس ہیں ۔ ان کے ہر کردار کی بولی ایک جیسی ہی ہوتی ہے ۔نثر ان کی بے مثال ہے ۔ ’’اردو ناول کا دوسری زبانوں کے ناول سے تقابل کرنا غلط ہے ۔ ایک تو اردو ناول کی عمر ابھی اتنی زیادہ نہیں ۔ ڈپٹی نذیر احمد کو ناول نگار مان لیا جائے تو بھی ناول نگاری کی صنف ڈیڈھ سو برس سے کم ہے۔ اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ یہ دعویٰ کر سکیں کہ اس میں وار اینڈ پیس اور برادرز کرامازوف جیسے ناول نہیں۔ ان بڑ ے ناولوں یا بالزاک یا فلابئیر کے ناولوں پر توسردوگرم بہت گزر چکا ہے ۔وہاں کئی زبانیں اور تہذیبیں ہیں جو اپنے اپنے طور پر ناول لکھ رہی ہیں۔ ان کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہو رہا ہے، اس لئے کئی زبانوں کے کارناموں کو ایک زبان سے کیسے مقابلہ ہوسکتا ہے؟ یہ تقابل ہی غلط ہے ۔ ’’نوبیل انعام یافتہ ترک ناول نگار اورحان پاموک کو ترکی سے محبت ہے پر وہ کہیں اشارہ نہیں دیتے کہ وہ مسلمان بھی ہیں یا یہ کہ جس ملک کو وہ بیان کر رہے ہیں، مسلمان ملک ہے یا رہا ہوگا۔ اپنی تہذیب کو ماضی تصور کر رہے ہیں، اس میں زندہ نہیں۔ مجھے ا س سے تھوڑی وحشت بھی ہوئی ۔ اسماعیل کادرے کا معاملہ بھی اورحان پاموک سے ملتا جلتا ہے ۔ میرے خیال میں اسے ادب کا نوبیل انعام ملنا چاہیے لیکن البانیہ والوں کو کون پوچھتا ہے۔ ناول نگاری کی قوت میں کادرے اورحان پاموک سے بڑھ کر ہے۔ ’’فلوبیئر کی مادام بواری کو فرسٹ ائیرمیں پڑھا، لیکن باریکیاں پلے نہ پڑیں، یہ ناول میرے ساتھ رہا۔ بہت بعد میں فلوبیئر کے خطوط اور ڈائریوں کو پڑھا تو ناول کو سمجھنے میں بصیرت افروز اور گہرے نکتے ملے ۔ عسکری صاحب نے لکھا کہ کوئی مادام بواری جیسے چار جملے لکھ دے تو میں اسے نثرنگار مان لوں گا۔ لڑکپن میں موپساں کو شوق سے پڑھا۔ موپساں جیسا ظالم افسانہ نگار تو کیا انسان بھی نہیں دیکھا۔ ٹالسٹائی کا وار اینڈ پیس پڑھا، اینا کارنینا بہت اچھا لگا۔ دستوفیسکی نے سب سے زیادہ اثر چھوڑا۔ وہ انسانوں کو بڑی توجہ سے دیکھتا ہے۔ ترگنیف نے پاگل بنا دیا۔ اسے بار بار پڑھا۔ فادر اینڈ سنز اچھا لگا۔ دستوفیسکی کے ہاں پیشن ہے، ہارڈی کے ہاں غصہ ہے، ترگنیف کے ہاں رشتوں کا شدید احساس ہے۔ چیخوف کے کچھ افسانے اچھے لگے ۔ تھامس ہارڈی کو بی اے کے زمانے میں پڑھا۔ ہارڈی نے جتنا گرفت میں لیا ، کسی نے نہیں لیا۔ وہ میرے ساتھ بہت دن تک رہا۔ہارڈی نے مجھے محسوس کرایا کہ میں زندگی کو جتنی بڑی سمجھتا ہوں، اس سے زیادہ بڑی ہے اور وہ اس سے واقعی میں بڑی نکلی۔ زیادہ ظالم ہے ۔ کائنات میں انصاف کا اصول نہیں۔