سوشل میڈیائی ڈیجیٹل دور کے حیران کن نگار خانے میں جدید انسان کا سب سے بڑا مسئلہ اس کا ذہنی انتشار ہے۔ہمہ وقت سکرین سے جڑی بے مصرف مصروفیات نے انسان سے اس کا ارتکاز چھین لیا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا کی ٹیکنالوجی سے جڑا ہوا انسان سمارٹ فون کی سکرین پر اپنی پوروں کے لمس سے پوری دنیا کے ساتھ گفتگو کرتا ہوا اس عالم غربت میں ہے کہ خود اپنا بھی نہیں رہا۔ ایک کامیاب اور ناکامیاب انسان میں فرق صرف مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول میں ارتکاز کا ہوتا ہے۔یہاں میں نے ناکام کی اصطلاح دانستہ استعمال نہیں کی کیونکہ لفظ ناکام بہت سخت ہے اور پھر کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ سب کے لیے الگ الگ ہے۔کامیابی اور ناکامی کے تصور کو تو چھوڑدیں آج کے جدید دور کے انسان کے باہمی تعلقات توجہ اور ارتکاز سے محروم ہیں۔ محفل میں ہوں یا گھر میں افراد خانہ کے ساتھ بیٹھے ہوں ،گفتگو کے دوران انگلی فون کی سکرین پر گھومتی رہتی ہے اور نظریں اس موبائل کی سکرین پر جمی رہتی ہیں۔ سانحہ تو یہ ہے کہ بچوں کو بھی ماں اور باپ کی خالص محبت دستیاب نہیں۔ ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہوئے افراد خانہ بعض اوقات اپنے اپنے موبائل فون کی سکرینوں پر دنیا سے جڑے ہوتے ہیں مگر آپس کے تعلقات میں ایک خلیج حائل ہوتی ہے۔اس سے بھی بڑھ کر یہ بات کہ آج کا انسان اپنی خالص تنہائی سے محروم ہو چکا ہے۔ تنہائی کے لمحات میں بیٹھ کر زندگی کے بارے میں سوچنا اور یا کچھ نہ سوچنا یہ بھی ایک عجیب لگژری ہو سکتی ہے لیکن سمارٹ فون کی موجودگی سے ہم اس نعمت سے محروم ہیں۔ یہ واردات ہم سب پر بیتتی ہے اور ہم سب اس کے شکار ہوتے ہیں۔ کبھی زندگی کی مصروفیات سے کچھ وقت ہم باہر گزارنے کے لیے جائیں تو بہت سا وقت کیمرے کی نذر کر دیتے ہیں۔ سمارٹ فون کے کیمرے سے زندگی کو دیکھنے کی ایک عجیب عادت بن چکی ہے۔اچھے مناظر اور زندگی کو تصویروں کی صورت میں کیمرے میں قید کرنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ کوشش کرتی ہوں کہ چیک رکھوں کہ کتنا وقت کیمرے کی آنکھ سے مناظر کو دیکھنا ہے اور کتنا وقت کیمرے سے ہٹ کر اپنی آنکھ سے آس پاس کے منظر کو دیکھنا اور خود اس منظر کا حصہ بننا ہے۔ اس چیز کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب کچھ عرصہ پہلے ہم لوگ باہر کھانے پر گئے اور اتفاق سے میں اور میرے میاں دونوں ہی اپنے موبائل فون گھر بھول گئے۔اس کا مطلب کہ ہم اپنے ساتھ سوشل میڈیا کی دکانیں ،ہزاروں فرینڈز اور فالوورز کے بغیر پہنچے تو وقت کا ایک ایسا ٹکڑا ہمارا منتظر تھا جس میں سمارٹ فون کی موجودگی نہیں تھی۔یقین جانیے ایک عجیب سکون کی کیفیت تھی جو وہاں اپنے ساتھ اور آس پاس کے ماحول کے ساتھ جڑ کر محسوس کی۔ کافی سال پہلے میں نے پروین شاکر ٹرسٹ کے ایک پروگرام کی میزبانی کی۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین مظہر الاسلام اس پروگرام کے منتظم اعلی تھے۔شاعروں، ادیبوں اور دیگر شرکاء کے ساتھ ڈنر پر گفتگو کی ایک نشست تھی۔ ایس او پیز مظہر الاسلام نے طے کیے کہ تمام شرکا اپنے موبائل فون بند رکھیں گے تاکہ پورے طریقے سے اس محفل کا حصہ بن سکیں۔ اپنے موبائل فون کی صورت ہم ہزاروں فالورز آن لائن فرینڈز ان گنت انٹرنیشنل دکانیں، مارکیٹیں ،آن لائن سٹور اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں ۔سو آج کا انسان خالص تنہائی کی لذت سے محروم ہو چکا ہے۔ تنہائی کے خالص پن میں اپنی ذات ،کائنات اور اس کے بنانے والے پر غور و فکر کرنا کسی عبادت سے کم نہیں۔ آپ یہ سوال اپنے آپ سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا آج کل ایسی تنہائی آپ کو میسر ہے؟ میرا خیال ہے زیادہ جواب نفی میں ہوگا۔ کیونکہ ہم میں سے ہر شخص سمارٹ فون کا نشئی ہو چکا ہے۔ یہ ایک ڈیجیٹل نشہ ہے جس نے پوری دنیا کے لوگوں کی سوچ کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم جس دنیا میں آج زندگی بسر کررہے ہیں یہاں ہر سرگرمی اب ٹونٹی فور سیون برپا رہتی ہے۔ تمام الیکٹرانک چینل چوبیس گھنٹے اپنی نشریات نشر کرتے ہیں۔اب تو خیر سے سمارٹ فون کا دور ہے لوگ ٹی وی دیکھنا چھوڑ کراب یوٹیوب کی سکرین سے جڑچکے ہیں۔ سمارٹ فون ہاتھ میں ہو تو کیا یوٹیوب ، فیس بک ریلز اور ٹک ٹاک پر لاکھوں ویڈیوز فوری طور پر آپ کی توجہ جذب کر لیتی ہیں۔ اور اس دوران آپ کے ارتکاز کی دیوار میں ایسی دراڑ ڈالتی ہیں کہ جو کام آپ اصل میں کرنے بیٹھے ہیں اسے سوشل میڈیا کی رنگا رنگ بھول بھلیوں میں فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جب آپ اپنے کام کے دوران سمارٹ فون کی کسی نوٹیفکیشن کا جواب دے کر واپس اپنے کام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اس دوران آپ اپنا ارتکاز کھو دیتے ہیں، ذہنی طور پر اس کام سے دوبارہ منسلک اور منہمک ہونے کے لیے کم ازکم تیس منٹ درکار ہوتے ہیں۔ یہ سائیکل سارا دن چلتا رہتا ہے اگر آپ اپنے سمارٹ فون کو بند نہیں کرتے تو کبھی فیس بک، واٹس ایپ انسٹا، ٹویٹر کے نوٹیفکیشن آپ کے ارتکاز کی دیوار میں دراڑ ڈالتے رہتے ہیں اور وقت گزرنے پر پتہ چلتا ہے کہ دن کا وہ زرخیز حصہ جس میں آپ اپنی بہترین توجہ اپنے کام کو دے سکتے تھے وہ اس لاحاصل سرگرمی کی نذر ہو گیا ہے۔ بھانت بھانت کی انفارمیشن کا سیلاب سوشل میڈیا پر موجود پوسٹوں اور ویڈیوز کے مینا بازار نے دماغ میں ایک انتشار کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔اس انتشارنے آج کے انسان کو اس کے قیمتی ترین اثاثے،خالص تنہائی ،دیانت بھری توجہ اور مکمل ارتکاز کی ارفع کیفیت سے محروم کردیا ہے۔