ستمبر کی 23 تاریخ ہے بارش رات سے ہو رہی ہے موسم خوشگوار ہو گیا ہے مگر آج بارش مجھے ہیمنگوئے کے ناولوں کا کردار لگ رہی کرب رنج جدائی کا استعارہ ! میری آنکھوں میں بھی بارش ہونے لگتی ہے۔مجھے 2010 کا 23 ستمبر بھی یاد آتا ہے عافیہ صدیقی کو امریکی جیل میں 86 برس کی سزا سنائی گئی تھی۔ابھی آصف محمود کا لکھا ہوا کتابچہ میرے ہاتھ میں ہے۔ امریکی سپر پاور کی وار آن ٹیرر کی وحشت کا شکار ہونے والی مظلوم مافیہ کی مظلومیت نے جیسے دل پر وار کر دیا ہو۔میں لفظ ڈھونڈ رہی ہوں کہ اپنے دل پر گزرنے والی اس واردات کو بیان کر سکوں۔میں نے بارہا مظلوم عافیہ صدیقی پر لکھا ہے اس کے کیس کا جائزہ لیا ہے پڑھا ہے اور اپنے تئیں کوشش کی ہے کہ اس پر مقدور بھر ایسا لکھ سکوں جس سے اس مظلوم کے کیس کو سمجھنے میں عام آدمی کو مدد مل سکے ۔دو دہائیاں گزر جانے کے باوجود عام پاکستانی اس کیس کو نہیں سمجھتا اس کیس کے ساتھ ابہام کی اتنی گرد ہے کہ عام شخص حقائق تک نہیں پہنچ پاتا۔محترم آصف محمود کا تحریر کردہ کتابچہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک قانونی مطالعہ اس برس جون میں شائع ہوا یہ کتابچہ ان کی 2013 میں لکھی گئی کتاب Dr afiya Siddiqui : A curious case of miscarriage of justice and human rights. کی تلخیص ہے۔ آصف محمود نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ابہام سے بھرے ہوئے کیس کو دلیل کے اختصار کے ساتھ 38 صفحے کے کتابچے میں اس طرح بیان کر دیا ہے کہ اس اہم کیس پر پڑی ابہام کی گرد کا ایک ذرہ بھی اس باقی نہیں رہتا۔لکھتے ہیں ’’جب ہم اس مقدمے کو قانون اور دلیل کی بنیاد پر پرکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے یہ معلوم انسانی تاریخ کے نا معتبر ترین مقدمات میں سے ایک ہے اس مقدمے میں نہ صرف قانون پامال ہوا بلکہ دنیا کی مسلمہ قانونی روایات کو بھی روند کر رکھ دیا گیا اس کے اس کا قانونی مطالعہ آدمی کو حیران کر دیتا ہے کہ انصاف کے نام پر اتنا بڑا ظلم بھی ہو سکتاہے۔اس ظلم پر خاموش رہنے کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اول آدمی اس کیس کی جزیات سے واقف ہی نہ ہو اور عافیہ کو ایک دہشت گرد سمجھتا رہے۔دوم وہ اس کیس سے متعلق جملہ تفصیل سے تو واقف ہو لیکن بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گونگا شیطان بن جائے۔تیسری کوئی صورت ممکن ہی نہیں۔ لاعلمی اور بددیانتی نہ ہوں تو کسی آدمی کے لیے اس ظلم پر خاموش رہنا ممکن نہیں: میں ایک عام سی صحافی ہوں تاریخ کے گرد میں گم ہو جاؤں گی وقت کا دریا بہتا رہے گا ،برس صدیوں میں ڈھل جائیں گے ہمارے ارد گرد بسے شہروں اور گھروں میں کوئی اور زندگی بسر کرے گا جو آج ہے وہ کل نہیں رہے گا سب تاریخ کا حصہ بن جائے گا مظلوم عافیہ جو آج امریکی قید میں انسانی تاریخ کا بدترین جبر سہہ رہی ہے، اس کی کربناک زندگی بھی اپنے انجام کو پہنچ چکی ہوگی۔ برس ہا برس کے ظلم اور وحشت سہنے والی مظلوم عافیہ رحمت اللعالمین ﷺسے ان حکمرانوں کی شکایت لگائے گی جنہوں نے تمام تر اسباب اور اختیار ہوتے ہوئے اس معاملے پر حد درجہ بے حمیتی کا مظاہرہ کیا۔یہ سب کردار بھی اپنے دنیاوی کر وفر کے ساتھ اپنے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوں گے اور یقینا اس عدالت میں جواب دہ ہوں گے۔ ان سے ان کے اختیار کا سوال ضرور ہوگا۔ عافیہ کا خاندان برس ہا برس سے حکمرانوں کی طرف دیکھتا رہا ہے۔نواز شریف، زرداری، عمران خان۔سبھی نے غیرت اور حمیت کے سامنے مصلحت کوشی اور بزدلی کو چنا اور عافیہ کے معاملے پر خاموشی اختیار کی۔حکومت سنبھالتے ہی امریکی آقاؤں کی آشیر باد حاصل کرنے جاتے ہیں حیرت ہے کہ وہاں بھی انہیں کبھی عافیہ یاد نہیں آتی۔ ہاں مجھے۔۔۔ یاد آئی تھی ٹیکساس ہوائی اڈے پر، جس کے ایک شہر ہیوسٹن کی جیل میں۔ وہ قید تنہائی کاٹ رہی تھی۔۔پھر سارا سفر ملال کا تھا۔میں ایک بے اختیار صحافی تھی مگر میں ضمیر کی آواز پر عافیہ کا معاملہ پاکستان کے ایمبیسی میں بھی اٹھایا تھا۔اور پھر ڈیلس کے ایک ہیومن رائٹس کے ادارے میں جو جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کی دادرسی کے لیے قانونی چارہ جوئی کرتا تھا، امریکی کوارڈینیٹرز کی ناراضگی کے باوجود میں نے وہاں عافیہ کا سوال اٹھایا تھا۔ ایک عام بے اختیار صحافی کی حیثیت میں یہی کرسکتی تھی۔لیکن ایوانوں میں بیٹھے ہوئے وہ لوگ جو با اختیار ہوتے ہوئے اس کیس سے پہلو تہی کرتے رہے ان کے مردہ ضمیروں نے انہیں اجازت نہیں دی کہ وہ عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے دیانت اور سچائی کے ساتھ کوشش کرتے۔عافیہ کے وکیل کلائیو اسمتھ کا کہنا ہے کہ عافیہ کی وطن واپسی کی چابی اسلام آباد کے پاس ہے اور اسلام اباد اس میں دلچسپی نہیں رکھتا۔عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی بار بار ہاتھ جوڑ کر پاکستان کی حکمرانوں سے پاکستان اہل اقتدار سے منتیں کر رہی ہیں کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کچھ کیا جائے مگر نہ جانے اقتدارکے ایوانوں میں اتنی پتھریلی خاموشی کیوں ہے؟میری خواہش ہے کہ آصف محمود کا تحریر کردہ یہ کتابچہ ہر پاکستانی پڑھے یہ 38صفحات نہ صرف اس کے ضمیر پر دستک دیں گے بلکہ اس کیس سے آ کاس بیل کی طرح لپٹے ہوئے ہر سوال کا شافی جواب بھی دیں گے ۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے با اختیار لوگو اور میرے عام بے اختیار پاکستانیو! خدا کے لیے اس ظلم،وحشت ۔درد اور کرب کو محسوس تو کرو۔کل جب عافیہ صدیقی رحمت اللعالمینﷺ سے تمھاری پتھریلی خاموشی اور بزدلی کی شکایت لگائے گئی تو کیا کرو گے؟ نوٹ(ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس ایک قانونی مطالعہ کے حصول کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں 03335915287)