آج کل مشرقی قوال اور مغربی گلوکار ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں‘ وہ ہے مفاہمت‘ حکومت ‘مفاہمت اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں پر مفاہمت، الیکشن کمیشن کی دھاندلی پر مفاہمت‘ انصاف کے قتل پر مفاہمت‘ پولیس کی بربریت پر مفاہمت‘ تحریک انصاف کے معصوم اور پرامن مقتولین کے خون پر مفاہمت‘ جبر ‘ تشدد‘ زور ‘ زبردستی سے ٹھونسی گئی جرائم پیشہ سیاستدانوں سے مفاہمت‘ امانتوں کی لوٹ پر مفاہمت‘ پوری کی پوری پچیس کروڑ لوگوں کی امیدوں اور آرزوئوں کی پامالی پر مفاہمت‘ سیاسی بحران پیدا کرنے والے‘ معاشی بدحالی اور تباہی کے ذمہ داروں سے مفاہمت‘ مفاہمت‘ مفاہمت ۔آخر یہ مفاہمت کون کرے؟ اور کس سے کرے‘ تنازعہ کیا ہے؟ ’’تنازعے کے فریق کون ہیں؟ مفاہمت کا ڈول کس نے ڈالا ہے؟ منصف کون ہے؟ ضمانت کس کی؟ ضامن کون؟ یہ مفاہمت کے خود ساختہ سفیر آخر ہیں کون؟ نقاب رخ الٹ کر ذرا سامنے تو آئیں تاکہ سارے فریق ان کے چہرے دیکھیں‘ ان کے کردار کو سمجھیں‘ ان کے ماضی میں جھانکیں‘ کیا یہ وہی باڑ تو نہیں جس نے پہلے بھی کھیتی کو کھا اجاڑ ہ ہے ۔جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا‘ سچ بولو۔ گھر کے اندر جھوٹوں کی اک منڈی ہے‘ دروازے پر لکھا ہوا ہے‘ سچ بولو۔ گلدستے پر یک جہتی لکھ رکھا ہے۔ گلدستے کے اندر کیا ہے‘ سچ بولو۔ گنگا میں تو ڈوبنے والے اپنے تھے۔ نائو میں کس نے چھید کیا ہے‘ سچ بولو۔ چوروں‘ ڈاکوئوں دیگر جرائم پیشہ افراد بھی گروہوں کی صورت کام کرتے ہیں‘ حکومت یا ریاست کی طرح ان کے بھی ادارے اور مختلف محکمہ جات ہوتے ہیں‘ ان محکموں کے ذمہ بھی مخصوص فرائض ہیں۔ ان کا ایک اہم ادارہ رسہ گیر کا ہے‘ رسہ گیر کو آپ‘ جرائم پیشہ گروہوں کی چھائونی کہہ سکتے ہیں رسہ گیر کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے‘ وہ نہ صرف انہیں پڑائو کے لئے چھائونی کا کام دیتا ہے‘ بلکہ قانون کی گرفت سے بچانے‘ نظام انصاف سے صاف بچا لے جانے کا انتظام و انصرام بھی اس کے فرائض میں شامل ہے‘ کیونکہ رسہ گیری ایک مستقل ادارہ ہے اور ادارے کی عمر یا مدت فرد سے کہیں طویل ہے، اس لئے اسے معاشرے میں زیادہ رسوخ حاصل ہو جاتا ہے‘ رسہ گیر خود ڈاکو ہے‘ چور نہ گرہ کٹ یہ ان کا سرپرست ہے اور سرپرست جرائم پیشہ گروہوں سے وصول ہونے والی رقوم سے سرکاری اداروں کی کالی بھیڑوں میں رابطہ کار بن جاتا ہے‘ عوام الناس اسے بااثر سفید پوش سمجھ کر اپنی اغراض کے لئے رجوع کرتے ہیں یوں اس کا اثرورسوخ سیاستدانوں کے کام آتا ہے‘ مقامی کونسلر ممبران صوبائی قومی اسمبلی اور پارٹی لیڈر ان کے ڈیروں پر چکر لگتے ہیں‘ کیونکہ پاکستان میں کبھی ان کی بیخ کنی نہیں کی گئی چنانچہ یہ ترقی کرتے کرتے بہت طاقتور بن گئے ہیں‘ انہوں نے معاشرے کے ہر طبقے میں نہ صرف اپنا اثر ورسوخ قائم کیا بلکہ براہ راست اہم ادارے بنا لئے اور اب کپڑے ‘ سیمنٹ اور ہائوسنگ سوسائٹیز کے مالک و مختار بن چکے ہیں‘ معمولی ڈھکن چوروں اور بلیک میں ٹکٹ بیچنے والوں کی اولادوں نے صنعت اور سیاست میں قدم جما لئے ہیں‘ جرائم کی ابتدا‘ میں سرکاری محکموں کے رشوت خور افسروں سے جو تعلق خاطر بنا تھا وہ ترقی کر کے اہم عہدوں تک آ گئے اور یہ لوگ ان کے تعاون‘ رسوخ اور دیگر جرائم کے سرمائے سے سیاسی اداروں پر قابض ہوتے چلے گئے‘ سیاسی اثر طویل اقتدار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے حکومت ‘ ریاست زمیندار رسہ گیر پیچھے رہ گئے‘ ان کی سرپرستی میں جرائم کے ہنر میں ترقی کرتے رہے اور بالآخر بڑی بڑی صنعت‘ تجارت اور سیاست کے ایوانوں پر قابض ہو گئے‘ ان کے چنگل سے نکلنے کی ہر کوشش کو حکومت میں موجود ان کے لے پالکوں ناکام بنا دیا‘ عوام نے طویل استحصالی اور جبر کی درازی کو محسوس کر لیا تھا مگر ؎ اے گرفتار وفا سعئی رہائی ہے عبث ہم بھی الجھے تھے بہت دام سے پہلے پہلے آگے بڑھنے سے پہلے دو واقعات قارئین کی ندر کرنا چاہوں گا‘ جرم اور سیاست کا تال میل کرتا کیا ہے‘ جب جرم پیشہ اختیار کیا تو اس میں ’’احسان‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں‘ مجرم نے رسہ گیر کو‘ رسہ گیری کی قیمت ادا کی ہے‘ مجرم جب تک ڈاکے ‘چوری وغیرہ میں طاق نہیں تھا‘ تب تک وہ سرپرستی کو ’’احسان‘‘ سمجھ کر سرنگوں رہا‘ آہستہ آہستہ وہ سارے ہنر اور احسان کے پیچھے اصل جذبے یا مقصد کو جان گیا تو پھر پناہ گاہ احسان نہیں بلکہ منافع بخش کاروبار نظر آنے لگی 1985ء میں پاکستان کی سینٹ کا ممبر بننے کے بعد پہلے پہل ایم این اے ہوسٹل میں کے کمرہ نمبر 2میں جو دراصل جاوید ہاشمی نے پہلے سے الاٹ کروا رکھا تھا وہاں پر رہائش اختیار کی تو ہمسایہ میں کمرہ نمبر 1سلطان چانڈیو رہائش پذیر تھے‘ بوٹا سا قد ‘ دبلے پتلے‘ خاموش ‘ ملنسار اور عاجزی کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے‘ سندھ کا بڑا نام‘ یہ ہمیں معلوم ہی تھا کہ سلطان چانڈیو صرف سندھ ہی نہیں پاکستان بلکہ برصغیر کے سب سے بڑے جاگیردار ہیں‘ جتوئی دوسرے نمبر پر آتے ہیں ۔ بھٹو صاحب کی جاگیرداری میں نشست بہت پیچھے تھی‘ چانڈیوں صاحب ہمیشہ آزاد الیکشن لڑتے اور کامیاب بھی ہوتے تھے انہوں نے سیاسی زندگی میں صرف ایک بار شکست کھائی وہ بھی اپنے بیٹے ’’شبیر چانڈیو ‘‘ کے ہاتھوں‘ شبیر نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا تھا‘ چانڈیو ہوں یا جتوئی یہ دونوں بلوچ قبیلے ہیں‘ سندھ میں بلوچوں کی تعداد بلوچستان کے بلوچوں سے بھی زیادہ ہے‘ جلد ہی بزرگ سیاستدان سلطان چانڈیو صاحب کے ساتھ تعلق دوستی اور دوستانہ بے تکلفی میں بدل گیا‘ ان دنوں سندھ کے اندرون میں ڈاکوئوں کا راج تھا‘ تمام شاہراہیں بشمول سب سے بڑی قومی شاہراہ ’’جی ٹی روڈ‘‘ پر رات تو کیا دن میں بھی سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا‘پنجاب سے سندھ میں داخل ہوتے یہ بسیں‘ ٹرک‘ کاریں‘ قافلے کی صورت سفر کرتے تھے جن کی حفاظت عموماً فوجی دستہ کیا کرتا تھا۔ سندھ میں ڈاکوئوں کا سب سے بڑا اور طاقتور گروہ بھی چانڈیو قبیلے سے تعلق رکھتا تھا‘ سلطان چانڈیو کی جاگیران کی پناہ گاہ ہوا کرتی تھی‘ چانڈیو صاحب سب سے بڑے جاگیردار ہی نہیں‘ سب سے بڑے رسہ گیر بھی خیال کئے جاتے تھے۔ ایک دن چانڈیو صاحب کے ساتھ خوشگوار اور بے تکلفانہ ملاقات میں غرض کیا‘ سندھ کی راہیں بڑی مخدوش ہیں کار میں سفر ناممکن ہو چکا ہے‘ بولے پنجاب میں جس طرح چوری اور زمینداری کا کلچر ہے اسی طرح سندھ میں ڈاکے اور زمینداری کا ہے‘ کہا‘ سنا ہے سندھ میں سب سے بڑا گروہ چانڈیوں قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور اس گروہ کو آپ کی سرپرستی حاصل ہے؟ بولے‘ ہاں یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ ان کا گروہ بڑا ہے اور خطرناک بھی لیکن اب وہ زمانے نہیں رہے جب زمیندار ان کی حفاظت یا سرپرستی کیا کرتے تھے‘اب وہ اتنے طاقتور اور بااثر ہو چکے ہیں کہ ہمیں زندہ رہنے کے لئے انہی کی حفاظت اور سرپرستی کی ضرورت ہے‘ جب پولیس خود ڈاکوئوں کے ہاتھ میں ہے تو وہ ہمارے سرپرست ہیں ہم ان کے سرپرست نہیں رہے۔