عوام کے اقتصادی اور معاشی پریشانیوں کا فوری حل تو شاید کسی بھی حکومت کے پاس نہیں۔ سیاست دان کہہ رہے ہیں مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ ظاہر ہے سب سے اوکھا کام مہنگائی پر قابو پانا ہے۔ لوگ گیس کے بلوں سے بلبلا اْٹھے ہیں۔ دو دن پہلے میں ایک نجی ہسپتال اپنے چیک اپ کے لیے گئی۔ واپسی پر اپنی کار کے انتظار میں داخلی دروازے پر میں گارڈ سے درخواست کر کے اس کی کرسی پر بیٹھی تو کہنے لگا: ’’میڈم! حکومت کب ہمارے بارے میں سوچے گی؟ مہنگائی نے ہماری کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ میں دو دو نوکریاں کرتا ہوں پھر بھی پوری نہیں پڑتی۔‘‘اتنے میں ہسپتال کے عملے کی چند عورتیں جو ڈیوٹی پوری کر کے واپس جا رہی تھیں وہ بھی رْک گئیں۔ ایک نے کہا: میرا گیس کا بل 24 ہزار روپے آیا ہے جبکہ میں اب نو بجے گھر جا کر کھانا بناؤں گی اور وہی کھانا اگلے روز کھاؤں گی۔ معلوم نہیں اتنا بِل کیسے آگیا۔‘‘ میں ابھی کچھ کہنا ہی چاہ رہی تھی کہ گارڈ پھر بولا: ’’میڈم! آپ اپنے ملازموں کی تنخواہیں بڑھا دیں۔ پھر میرے ساتھ میری میڈ کی طرف اشارہ کیا کہ اس کا خیال کرتی ہیں؟‘‘ اس کی بے باکی پر مجھے حیرت ہوئی۔ جواب میں مَیں نے اسے بتایا کہ میں اپنی میڈ کو اس کی مطلوبہ تنخواہ ہی دے رہی ہوں اور حتی الامکان اپنے بچوں کی طرح رکھتی ہوں۔ واضح رہے میں نے کبھی چھوٹے بچوں کو ملازم نہیں رکھا۔ یہ بھی شادی شدہ ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ ہمارے ہاں رہتی ہے۔ خیر بات چلی ہے مہنگائی اور وسائل کی تو واپسی پر راستے بھر میں سوچتی رہی کہ جو لوگ خود نوکری پیشہ ہیں اور ظاہر ہے گھریلو ملازمین کے بغیر گزارہ بھی نہیں اگر ان لوگوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہو رہا تو وہ کیونکر اپنے ملازمین کی تنخواہیں بڑھا سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ بجلی فی یونٹ مبلغ سات روپے بڑھا دی گئی ہے۔ کمائیاں تو بڑھی نہیں۔ نواز شریف صاحب فرما رہے ہیں پہلے 2سال مشکل ہوں گے۔عرصہ دراز سے ہر آنے والی حکومت یہی لالی پاپ دیتی ہے کہ اب چند سالوں بعد ہم سنبھل جائیں گے۔ عوام کو سکون دینا ہے۔ پچھلے 16ماہ میں ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ جو پارٹی بھی جیت کر آتی ہے اس کے پاس مزدوروں اور کسانوں کے لیے واضح ایجنڈا ہونا چاہیئے کیونکہ یہ طبقہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ نہ تو انہیں ان کی محنت کا پھل ملتا ہے اور نہ ہی عزت۔ جب تک عوامی حکومت نہیں آئے گی عوام کے بنیادی حقوق کا خیال کیسے ممکن ہوگا۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ یہاں کی اکثریت غریب ہے۔ کم تنخواہوں میں ان کو تعلیمی اور طبی سہولتیں مفت ملنی چاہئیں۔ جہاں پر ہم نے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں کو صنعتی ترقی دینی تھی وہاں تو ہم نے رہائشی سکیمیں بنا ڈالیں۔ جبکہ بڑے شہروں میں بھی صنعتی معکوس ترقی کو جنم دے ڈالا۔ جب تک معاشی طور پر متوازن منصوبہ بندی قائم نہیں ہوگی تب تک یہ تکلیفیں جاری رہیں گی۔ معاشی اور اقتصادی استحکام کے لیے ملک سے سیاسی تقسیم کا ختم ہونا انتہائی اہم ہے۔ کیا بٹوارہ اس واسطے ہوا تھا کہ ہم آپس ہی میں گتھم گتھا ہوتے رہیں۔ اس وقت ہمارا ملک واقعی بہت سارے خطرات سے دو چار ہے۔ دوستوں کی ہر محفل میں پاکستان پر ٹوٹنے والے مسائل کا ذکر جاری رہتا ہے۔ موسمِ گرما بھی دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔ گیس کے بلوں کی طرح بجلی کے بل بھی ملک گیر احتجاجی مظاہروں کی طرف جا سکتے ہیں۔ بجلی کے نرخ بڑھنے کی وجہ سے تین سال قبل فیصل آباد کی ریکارڈ زرِ مبادلہ کمانے والی کپڑے کی ملیں بند ہو گئیں اور لاکھوں مزدور بے روزگار ہو گئے۔ جب تک سیاسی استحکام اور منصفانہ فیصلے نہیں ہوں گے معکوس ترقی ہی ہوتی رہے گی۔ بھٹو صاحب کی ناکامی کی وجہ بھی سیاسی عدم استحکام ہی تھا۔ ملکی ترقی میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیئے۔ خدا کرے ہمارے سیاست بازوں میں قومی احساس پیدا ہو جائے۔ 1988 سے لے کر 1999 تک بی بی بے نظیر شہید اور نواز شریف کی حکومتیں تھیں۔ اس دہائی میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کے رجحان کو بڑھاوا د یا گیا۔ 1988 کے الیکشن میں پی پی پی نشستوں کی تعداد کے اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور بی بی شہید نے مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم کی حیثیت سے ملک کا نام روشن کیا۔ اقتدار کی منتقلی کے وقت انہیں سخت شرائط سے گزرنا پڑا۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی عوام کی نمائندہ ہوتی ہے۔ یہ اسمبلی ہی طے کرتی ہے کہ وہ خود مختار اور آزاد مملکت پاکستان کے آئین کے مطابق عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے جمہوریت، مساوات، آزادی، رواداری اور سماجی انصاف کے سائے میں لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق مہیا کیے جائیں گے۔ اس وقت اسمبلی کے اندر بھی عجیب و غریب صورتِ حال ہے۔ کب تک ہمارے پارلیمانی نظام کی بس دو پہیوں پر چلتی رہے گی۔ 1970 سے لے کر آج دن تک ہر الیکشن کے بعد بد ترین دھاندلی کا شور بلند ہوتا ہے۔ تمام جماعتیں جمہوری ہونے کے بلند و بانگ دعوے تو کرتی ہیں مگر منطقی جمہوریت کہیں گرد کی طرح بیٹھ جاتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت یہ تو کہتی ہے ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا مگر اپنے اپنے فائدوں کے لیے بغض چھوڑنا نہیں چاہتیں۔ موجودہ اقتصادی صورتِ حال بہت تشویش ناک ہے کیوں کہ حکومت کے پاس کوئی معاشی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ عوام کو کیسے سکون پہنچایا جائے گا؟ عوام جس تحفظ کی انتظار گاہ میں بیٹھی ہے وہاں معاشی اور سیاسی استحکام کی ریل کیسے پہنچے گی۔پبلک سیکٹر میں ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے۔ لوگ اور غیر ملکی بھی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔ مہنگائی ساتویں آسمان پر پہنچ گئی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے آپس کے اختلافات اب ختم ہونے چاہیئں۔ سچ اور جھوٹ کے نتھارے بھی ہو چکے۔ اب عوام کالی دال نہیں کھا ئیں گے۔ ٭٭٭٭٭