29 فروری 2024ء کے دن 302 ممبران نے قومی اسمبلی میں بطور ممبر قومی اسمبلی حلف اٹھا لیا۔ جیسے ہی اجلاس شروع ہوا سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا پلیز آرڈر ان دی ہاوس، لیکن شور شرابہ، نعرہ بازی، ہلڑ بازی سے اس اجلاس کا آغاز ہوا۔ راجہ پرویز اشرف سپیکر قومی اسمبلی نے جو کہ حالیہ الیکشن میں ممبر قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے ہیں انہوں نے اپنا نام لے کر حلف اٹھا لیا باقی ارکان، نے بھی ان کے ساتھ حلف اٹھا یا، یہ پاکستان کی واحد اسمبلی ہے جس کے انتخابات گو مگوں کا شکار رہے۔ سنیٹ آف پاکستان سے الیکشن کے التوا کی قرارداد بھی منظور ہوئی، کچھ نادیدہ قوتیں انتخابات کا انعقاد چاہتی تھیں، لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کی مداخلت سے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک پیج پر آئے اور 8 فروری کی تاریخ طے ہوئی۔ 8 فروری کے نتائج پر بھی فارم 45 اور 47 کے مختلف نتائج کی وجہ سے سوال اٹھ رہیتھیپھر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں بھی ڈیڈ لاک کی صورتحال پیدا ہوئی۔ صدر پاکستان نے وفاقی حکومت کی اجلاس بلانے کی سمری یہ اعتراض لگا کر واپس بھیج دی کہ ابھی پارلیمنٹ مکمل نہیں ہوئی اس لیے اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔ سپیکر قومی اسمبلی نے 29 فروری کو اجلاس طلب کر لیا رات گئے صدر نے بھی اجلاس بلانے کی سمری پر دستخط کر دیئے یوں 29 فروری کے اجلاس کا انعقاد ممکن ہوا، منتخب ہونے والے 265 ممبران قومی اسمبلی اور خواتین و اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پارٹی ایم کیو ایم و دیگر جماعتوں ماسوائے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشتیں الاٹ ہو چکی ہیں۔ لگ بھگ 30 کے قریب ممبران قومی اسمبلی کی نمائندگی /نامزدگی کے بغیر 302 ارکان قومی اسمبلی نے حلف اٹھا لیا، اب پہلے ہی اجلاس میں اتفاقاً یا دانستہ طور پر 302 کا ہندسہ کے ساتھ اراکین قومی اسمبلی کا حلف اٹھانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔اللہ کرے ہمارے ممبران اسمبلی میں سے کسی ایک پر بھی اس کا اطلاق نہ ہو، کیونکہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو بھی قتل کے الزام میں پھانسی چڑھ گئے تھے۔ان دنوں یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے، سپریم کورٹ سے اس بارے میں کیا فصیلہ آتا ہے یہ کچھ روز تک واضح ہو جائے گا تاہم بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کہنا زبان زد عام ہے۔ اب جبکہ 302 ارکان نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ آئین پاکستان کی پاسداری کریں گے اور وہ اپنے ذاتی مفاد کو پاکستان کے مفاد پر ترجیح دیں ! قومی اسمبلی میں 302 ارکان میں بہت جہاں دیدہ سرد گرم دیکھنے والے سیاست دان موجود ہیں جو کئی کئی بار قومی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں اور عمر کی ستر کے قریب بہاریں دیکھ چکے ہیں اس اسمبلی میں ایسے جہاں گھاگ سیاست دان آ چکے ہیں جن میں چار، پانچ سابق وزیراعظم پاکستان سابق صدر پاکستان کئی سابق اسپیکر قومی اسمبلی کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان بھی موجود ہیں، وہاں اس قومی اسمبلی میں کچھ نئے چہرے بھی موجود ہیں، جو نوجوان ہیں اور جذبات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ ہر طرح کے خطرات سے ٹکرانے کا جنون رکھتے ہیں اور جذبات کی طیش میں جمہوری یا غیر جمہوری آئینی یا غیر آئینی سوچ میں نہیں پڑھتے، اب اس اسمبلی کی کڑی آزمائش کا وقت شروع ہو رہا ہے کہ وہ جہاندیدہ معاملات کیسے آگے بڑھاتے ہیں۔ اجلاس کی شروعات تو اچھی نہیں لگی ہیں یکم مارچ کے اجلاس میں نئے سپیکر قومی اسمبلی و ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب ہو چکا پاکستان مسلم لیگ ن کے سنیر رہنما سردار ایاز صادق سابق سپیکر ایک بار پھر قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہو چکے ہیں جبکہ ڈپٹی اسپیکر کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے منتخب ہو ئے ہیں ۔ وزیر اعظم پاکستان کا انتخاب 3 مارچ کو ہونا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کی طرف سے میاں محمد شہباز شریف صدر پاکستان مسلم لیگ ن سابق وزیر اعظم ایک بار پھر وزیر اعظم پاکستان کے عہدے کے لیے امیدوار ہیں جبکہ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے سابق وزیر عمر ایوب خان وزیر اعظم کے عہدے کے لیے امیدوار ہوں گے، اس وقت قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے ممبران اسمبلی کی تعداد 200 کے قریب ہے جبکہ وزیر اعظم بننے کے لئے 169 ارکان کی حمایت درکار ہے ۔امید ہے کہ میاں محمد شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہو جائیں گے، لگتا کچھ ایسا ہے کہ موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر بھی ہماری اسمبلی کے ارکان پاکستانی عوام کو مہنگائی کی چکی اور ڈوبتی ہوئی معشیت کی کشتی کو بھنور سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے کیونکہ ہر طرف ہی دھاندلی کا شور مچا ہوا ہے ۔ 70 نشتوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ فارم 45 کے تحت جیتے ہوئے ہار گئے ہیں اور فارم 47 کے تحت حلف ہارے ہوئیاٹھا چکے ہیں، اپریل 2022ء کی وزیر اعظم پاکستان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد سے اب تک پاکستان تحریک انصاف کا موڈ خاصا جارحانہ ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف جو کہ اب سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو چکی ہے کیا موجودہ اسمبلی میں بیٹھ کر حکومت کو تگنی کا ناچ نچاتی ہے یا کہ پھر قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے بائیکاٹ کے بعد نوبت پھر استعفے دینے تک پہنچتی ہے۔ ہم اپنے ان نو منتخب ممبران اسمبلی اور نو منتخب سپیکر سردار ایاز صادق سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ فہم و فراست سے معاملات کو آگے بڑھانے کے لئے اپنا اہم کردار ادا کر کے پاکستان کے عوام کی نمائندگی کا حق ادا کریں گے، ورنہ رہی سہی جمہوریت کو بھی شدت نقصان پہنچ سکتا ہے۔