غزہ میں اسرائیل نے غذائی امداد کے لئے قطار میں لگے فلسطینیوں پر حملہ کر کے ایک سو چار افراد کو شہید کر دیا ہے۔غزہ میں خوراک کی قلت اس حد تک تشویشناک ہو چکی ہے کہ چھ بچے بھوک سے جاںبحق ہوگئے ہیں۔بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق امریکہ نے اسرائیل سے اس واقعہ کی وضاحت طلب کر لی ہے۔غزہ کی صورتحال عالمی بے حسی کے باعث ایک بڑی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔اقوام متحدہ اور مسلم ممالک کی بارہا اپیلوں اور جنوبی افریقہ سمیت انصاف پسند ریاستوں کی کوششوں کے باوجود تنازع ختم کرنے کی ابتدائی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔سلامتی کونسل میں جب بھی جنگ بندی کی قرار داد پیش کی جاتی ہے امریکہ اسے ویٹو کر کے فلسطینی عوام کے خون بہا کے لئے اسرائیل کی حوصلہ افزائی کا باعث بن جاتا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں اب تک تیس ہزار کے قریب فلسطینی جاںبحق ہوچکے ہیں۔ہسپتالوں، تعلیمی اداروں ،پناہ گاہوں پر اسرائیل نے بلا امتیاز حملے کئے ہیں۔ان حملوں کی مذمت انسانی حقوق کے اداروں ، بچوں کے حقوق کے عالمی ادارے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کی لیکن اسرائیل اور اس کے اتحادی بڑے ممالک اسے حق دفاع کی آڑ میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تنازعے کے آغاز سے لے کر اب تک ہر روز اوسطاً 200 سے زیادہ افراد جاںبحق ہوئے ہیں۔بظاپر ایسا لگتا ہے کہ اکتوبر سے فروری تک جنگ کے شروع کے مراحل کے مقابلے میں اب ہلاکتوں کی رفتار میں کمی ہوئی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جارحیت سے ہلاک ہونے والوں کا اصل تعداد نمایاں طور پر زیادہ ہونے کا امکان ہے ۔ بہت سے ہسپتال اب کام نہیں کر رہے ۔ عام طور پر وہاں اموات ریکارڈ کی جاتی ہیں۔یہ اعدادوشمار صرف فوجی کارروائی میں مرنے والے افراد کے ہیں اور ان میں بھوک یا بیماری سے ہونے والی ہلاکتیں شامل نہیں جن کے بارے میں عالمی امدادی ادارے تشویش ظاہر کرتے رہے ہیں۔بیت المقدس میں کام کرنے والی حقوقِ انسانی کی تنظیم بیت السلم کا کہنا ہے کہ حالیہ جنگ اسرائیل اور غزہ کے درمیان ماضی میں ہونے والی لڑائیوں سے کہیں زیادہ مہلک ہے۔ تنظیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کے متعلقیہ وہ اعدادوشمار ہیں جوغزہ یا دیگر علاقوں پر ماضی میں ہونے والی کارروائیوں یا حملوں میں نہیںدیکھے۔انھوں نے کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی فوج کے ترجمان کی طرف سے بیان کردہ موقف کی روشنی میں دیکھی جا سکتی ہے جنہوں نے کہا تھا کہ ابھی اسرائیل اس بات پر توجہ مرکوز کر رکھے ہوئے ہے کہ زیادہ سے زیادہ نقصان کس چیز سے ہو گا۔ فلسطینی عوام کے حوالے سے مسلم دنیا کا طرز عمل بزدلی اور مصلحت کوشی پر مبنی رہا ہے۔کچھ ملکوں کے سربراہاں نے زبانی کلامی مذمت سے کام چلایا ۔مسلم دنیا میں عوام اسرائیلی حملوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے رہنما اسرائیل کو سزا دیں۔ لبنان میں حزب اللہ کے سینکڑوں حامی لبنان اور اسرائیل کے درمیان سرحد پر واقع فاطمہ گیٹ پر جمع ہوئے اور "مرگ بر اسرائیل" کے نعرے لگائے ۔ مصر میں ہزاروں طلباء نے ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں احتجاجی مظاہرے کیے اور عرب رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکیں اور فلسطینیوں کی حمایت کریں۔ مظاہرین نے اسرائیلی اور امریکی پرچم جلائے۔ تقریباً 10,000 مظاہرین، خاص طور پر اردن کے مرکزی دھارے میں شامل اخوان المسلمین اور حزب اختلاف کے چھوٹے گروپوں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے ملک کے سب سے بڑے اسرائیل مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔ سعودی عرب نے اسرائیل کی کارروائی کا موازنہ "نازی جنگی جرائم" سے کیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینیوں کے "اجتماعی قتل" کو روکے۔ ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے کہا کہ اسرائیلی حملوں کا "کوئی انسانی جواز نہیں ہو سکتا"۔ مزید کہا کہ اسرائیل اس تنازع کے "سفارتی حل" کو مسترد کر رہا ہے۔ غزہ میں انسانی صورتحال کو "بحران" اور "تباہ" قرار دیا گیا ہے۔ اسرائیل کے محاصرے کے نتیجے میں، غزہ کو ایندھن، خوراک، ادویات، پانی اور طبی سامان کی قلت کا سامنا ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے سربراہ مارٹن گریفتھس کا کہنا ہے کہ "غزہ میں شہری آبادی کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔گزشتہ برس 16 اکتوبر کو ڈاکٹروں نے ہسپتال میں بھیڑ اور برائے تدفین لاشوں کی وجہ سے بیماریاں پھیلنے کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ اسی دن ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے قابل استعمال پانی اور ایندھن ختم ہونے کا بتایا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق غزہ کی صورتحال قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ اسرائیل کی کارروائیاں واضح طور پر جنگی جرائم کی ذیل میں آتی ہیں۔دنیا میں اگر کہیں انصاف نام کی کوئی شے موجود ہے تو اب تک عالمی نظام اس کو بروئے کار نہیں لا سکا۔ فلسطینیوں کا خون اس قدر حقیر کیوں ہے کہ اسرائیل کا ہاتھ روکنے کا بندو بست کیوں نہیں کیا جا سکا۔فلسطینی عوام کی بے بسی کی انتہا یہ ہے کہ انہیں اسرائیلی حملوں سے بچنے کے لئے جائے پناہ میسر ہے نہ ایندھن و خوراک میسر ہے۔یہ صورتحال مزید جاری رہی تو صرف اسرائیل ہی نہیں اس کے حامی اور سرپرست بھی اپنی ساکھ کھو بیٹھیں گے۔امریکہ وضاحت طلب کرنے کے ساتھ اسرائیل کو جنگ بندی کا کہے تاکہ تنازع کے سیاسی حل کی جانب پیشقدمی ہو سکے۔