مکرمی ! یہ جملہ’’ہمیں انصاف دو‘‘ اکثر اس وقت سننے کو ملتا ہے جب قصور کی زینب انصاری جیسی معصوم لڑکیاں درندگی کا نشانہ بنتی ہیں،یا پھر اس وقت جب زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے اداروں میں ہماری بیٹیاں اور بہنیں محفوظ نہ ہو یا پھر اس وقت جب عافیہ صدیقی جیسی امت کی بیٹیاں بیچی جاتی ہیں!پہلے احتجاج کیا جاتا ہے۔۔پھر تقریریں، پہلے ہزاروں لوگ آواز اٹھاتے ہیں، پھر ان کی تعداد کم ہوتی چلی جاتی ہے حق اور انصاف کے لیے اٹھنے والی یہ آوازیں آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی جاتی ہیں اور آخر میں آواز اٹھانے والا کوئی نہیں بچتا۔کیا ان کی مدد کرنے کے لیے یہ بات کافی نہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ کیوں حق اور انصاف کے لیے اٹھائی جانے والی آوازیں وقت کے ساتھ ساتھ دھیمی ہوتی چلی جاتی ہیں؟کیوں اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں اسلام کی بیٹیاں ہی محفوظ نہیں؟ کیا کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا ہے۔ (ماہین نواز)