مکرمی!حضرت علامہ محمد اقبال نے ملّتِ اسلامیہ کی فلاح و بہبود اور عروج و ترقی کے سلسلہ میں اپنی بہترین اْمیدیں نوجوانوں کے ساتھ وابستہ کی ہیںکیونکہ نوجوان خون ہی کسی قوم میں انقلاب لایا کرتا ہے۔ اقبال زیادہ تر نوجوان ہی کو اپنا مخاطب بناتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! نو جوانوں کیلئے ان کے پیغام کو سہل بنادے تاکہ وہ اس روشنی میں اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ اقبال ملّت کے نوجوانوں کے سامنے اس ملت کاشاندار ماضی رکھتے ہیں ۔ ہمارے آباؤ اجداد نے زندگی کے ہر میدان میں جو ورثہ چھوڑا ہے، اقبال نوجوانواں کو اس کا امین سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں۔کبھی اے نوجواں مسلم تدبّْربھی کیا تونے۔وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا ۔اقبال کا نوجوان سچا مسلمان، ہر لمحہ متحرک اورسراپا عمل ہے ، وہ اللہ تعالی پر بھروسہ رکھتا ہے ،اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کیلئے کوشاں رہتا ہے۔ وہ مسلم نوجوانوں کے اندر تیز رفتاری، تیز نگاہی ، خود داری اور خود اعتمادی ابھارنا چاہتے ہیں کہ شاہیںبناتا نہیں آشیانہ۔وہ نوجوانوں کی خودی صورت فولاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ تیرے دریا میںطوفاں کیوں نہیں ہے ، خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے۔ عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں۔ تو خود تقدیریزداں کیوں نہیںہے۔ اقبقال چاہتے ہیں نوجوان اپنے دلوں کوہر ما سوا سے خالی کر کے اس میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی یاد بسا لیں۔ اس سے دل زندہ ہو جائیں گے تو نوجوان انقلاب لے آئیں گے۔ نئی زمین اور نیاز ماں تخلیق کر دیں گے یہی وہ نور بصیرت ہے جسے اقبال عام کرناچاہتے ہیں۔ (ارفع رشید عاربی)