سٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود بائیس فیصد پر برقرار رکھی ہے۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس کے بعد گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ مہنگائی کا دباو ابھی تک موجود ہے۔ملک میں مہنگائی کے اعداد و شمار پر سٹیٹ بینک، حکومت اور عوامی سروے جدا جدا حقائق بتا رہے ہیں۔عام آدمی جس برے طریقے سے روزمرہ استعمال کی اشیا کے نرخ بڑھنے سے متاثر ہوا ہے اس کا احساس حکومتی سطح پر نہ ہونے کے برابر ہے۔حیرت اس امر پر ہے کہ حالیہ دنوں وہ سیاسی رہنما مہنگائی کم کرنے کے وعدے کرتے نظر آئے جو مہنگائی میں ہوشربا اضافے کے ذمہ دار رہے ہیں۔بظاہر مہنگائی کے متعلق بالائی طبقات بے حس ہو چکے ہیں،حکمران اشرافیہ سمجھتی ہے کہ مہنگائی اس کا مسئلہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب کبھی مہنگائی کا ذکر آتا ہے تو ساتھ ہی حکومتوں کی کارکردگی مایوس کن نظر آتی ہے۔مہنگائی پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ کاروباری سرگرمیاں بد عنوانی، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے پاک کر دی جائیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ گوشت، انڈے،دودھ کے کاروبار طاقت کے ایوان میں بیٹھے سیاست دونوں کے اختیار میں ہیں۔کسان سبزی اگاتا ہے جو اس سے چند روپوں میں خرید کر عوام کو سونے کے بھاو بیچ دی جاتی ہے۔گندم کسان اگاتا ہے لیکن حکومت اس کے گوداموں سے ساری فصل اٹھا لیتی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ آٹا سستا رکھنے کا یہی طریقہ ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ بد نیت حکام پھر بھی آٹا سستا نہیں ہونے دیتے۔