آج یکم مارچ ہمارے محبوب لکھاری اور اردو ادب کے قد آورنثر نگار جناب مستنصر حسین تارڑ کا جنم دن ہے۔گاہے حیرت ہوتی ہے کہ تارڑ صاحب نے اپنی زندگی میں کئی متنوع کردار کس کامیابی سے نبھائے۔ ٹی وی پرسن کی حیثیت سے انہوں نے ٹی وی میزبانی کے ایک نئے ذائقے سے پاکستانی قوم کو متعارف کرایا جس کا آج تک کوئی ثانی نہیں۔ مستنصر حسین تارڑ ان گنے چنے ادیبوں میں شامل ہیں جو جتنا اچھا لکھتے ہیں اتنا ہی اچھا بولتے ہیں۔ پاکستان کے لاکھوں لوگ ان کی آواز سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی ان کے لکھے ہوئے الفاظ سے! چینلوں کی بھرمار میں اگر تارڑ صاحب سکرین پر بولتے ہوئے نمودار ہوں تو چینل بدلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میری نسل کے لوگ عمر کے مختلف مرحلوں میں مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ کسی نہ کسی طور جڑے رہے ہیں۔اول اول ان سے تعلق کا پہلا بہانہ صبح کی نشریات بنیں۔گھر میں صبح کا ہنگامہ جاگ اٹھتا تھا۔ امی جان ناشتہ بنا رہی ہوتی تھیں اور ہم پانچ بہن بھائی اپنے اپنے سکول کالج کی تیاریوں میں ہوتے ۔ ٹی وی کے کمرے میں رکھے ہوئے ٹی وی پر صبح کی نشریات کو اس بھلے وقت میں ، مارننگ شو نہیں بلکہ صبح کی نشریات کہا جاتا تھا، مستنصر حسین تارڑ ہمیں میزبانی کرتے نظر آتے کبھی ان کے ساتھ قرۃ العین حیدر بھی شریک میزبان ہوتیں۔ ابھی لفظ اینکر متعارف نہیں ہوا تھا۔ ہم اپنا اپنا ناشتہ لے کے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے اور چاچا جی تارڑ کی پیاری پیاری باتیں سننا کرتے تھے۔ صبح کی ان نشریات میں ہر عمر کے افراد کے لیے سب کچھ ہوتا تھا۔اپنائیت بھری باتیں ،جن میں نصیحت بھی تھی اور پیار بھی۔تارڑ صاحب سے دوسرا تعلق ان کے سفر ناموں سے بنا ۔ابتدائی دور میں جب کالج میں داخل ہوئے تو ان کی کتاب’’ نکلے تیری تلاش میں ‘‘ اور ’’ پیار کا پہلا شہر‘‘ پڑھی۔ ’’ نکلے تیری تلاش میں‘‘کئی بار پڑھا۔ہمارا تو صادقین سے بھی پہلا تعارف تارڑ صاحب کی اسی کتاب سے ہوا۔ اس میں ہر باب کے آعاز میں صادقین کے ہاتھ کے سکیچز بنے ہوئے تھے۔ پیار کا پہلا شہر ناولٹ نما سفر نامہ تھا جو اس دور میں کالج کے طلبہ میں ہاٹ کیک کی طرح مقبول تھا۔بیسویں صدی کا اختتام ہو رہا تھا اور 21 ویں صدی اپنے تمام سرپرائزز کے ساتھ دروازے پر کھڑی تھی۔اس وقت ہمیں اندازہ تھا کہ اگلی دہائی میں سب چیزیں بدل کے رہ جائیں گی۔پاکستان ٹیلی ویژن نے مستنصر حسین تارڑ کی صبح کی نشریات کے تہذیب میں ڈھلے ایک ندی کی طرح بہتے ہوئے دھیمے دھیمے پروگرام کو ختم کر کے ایک نئے انداز کی بے رس مارننگ ٹرانسمیشن کا آغاز کر دیا تھا جو کسی دھچکے سے کم نہ تھا۔ صبح کی نشریات میں تہذیب تھی ،تربیت تھی ،تارڑ صاحب کی انمول گفتگو کی چاشنی تھی۔ اس کو ختم کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھامگر اب یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ہر خوبصورتی مختصر وقفے کے لیے ہوتی ہے، محبت کے ہر دور کا ایک اختتام ہے۔سو یہ تبدیلی خود تارڑ صاحب کے لیے اور ان کے لاکھوں پڑھنے والوں کے لیے خوش آئند ثابت ہوئی کیونکہ ٹی وی کی نشریات سے جب تارڑ صاحب کو فراغت ملی تو دوبارہ سے اپنی مکمل طور پر ایک تخلیقی زندگی کی طرف لوٹ کر آئے۔ہم بھی عمر کے رتھ پر سوار تھے۔ زندگی تجربے اور شعور کے نئے نئے راستوں سے گزر رہی تھی اور تارڑ صاحب بھی تخلیقی سطح پر انوکھے تجربات سے گزر رہے تھے۔وہ بھی بطور لکھاری اپنے آپ کو کھوج رہے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ٹی وی پرسنلٹی کے آسان امیج کو مٹا کر ایک ناول نگار کے قد آور امیج بنانے کی شعوری کوشش میں مصروف تھے۔ پھر ہمارا تارڑ صاحب سے تیسرا تعارف ہوا۔ ان کے ناول بہاؤ، راکھ اور قربت مرگ میں محبت نے ہمیں ایک نئے تارڑ صاحب سے ملوایا۔قسمت مجھے صحافت میں لے آئی اور میں پاکستان کے سب سے بڑے روزنامہ کے میگزین سیکشن میں کام کر رہی تھی۔ مجھے ادبی ایڈیشن پر پہلی اسائنمنٹ ادیبوں شاعروں سے ایک ادبی سروے کی ملی۔جب تارڑ صاحب کا نمبر ہاتھ آیا تو مت پوچھیے کہ خوشی کا کیا عالم تھا۔میں نے نمبر ڈائل کیا اور دوسری طرف سے وہی مانوس آواز کانوں سے ٹکرائی۔ مجھے لگا وہ ابھی کہیں گے السلام علیکم سارے پاکستان اور پیارے پاکستان! ایک خواب کی سی کیفیت تھی۔پھر تارڑ صاحب سے ملاقات کی کئی صورتیں نکلتی رہیں اور ہر بار ان کی شخصیت کی کشش پہلے سے زیادہ ہو جاتی۔84برس کی بھرپور تخلیقی زندگی گزارنے والے تارڑصاحب کی زندگی سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ اوریجنلٹی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور تخلیق کا سفر کبھی رکنا نہیں چاہیے۔ مثلا جب انہوں نے سفرنامے اپنے انداز میں لکھنا شروع کیے تو اس سے پہلے ایسی تحریروں کی کوئی مثال نہیں تھی انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن وہ اپنی اوریجنلٹی کے ساتھ سفر نامے لکھتے رہے اور ایسے لکھے کہ سفر نامے کو بہترین فکشن اور ناول کے مقابل لا کھڑا کیا۔ اگر محض شہرت سمیٹنا ان کا خواب ہوتا تو وہ اس وقت جب ٹی وی میزبان کی حیثیت سے پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر ان کا نام تھا اس کے بعد وہ کبھی بھی بہت زیادہ توجہ کے متقاضی تخلیقی اظہار کا کام ناول نگاری کی صورت میں نہ کرتے مگر انہوں نے ناول لکھنے کی لیے بھرپور ریاضت کی اور تخلیقی مشقت اٹھائی ۔ تارڑ صاحب نے اردو ادب کو شاندار ناول دئیے اور مفتی صاحب کے اس خدشے کو غلط ثابت کر کے دکھایا کہ بطور لکھاری مستنصر کو ٹی وی کی شہرت نے ضائع کر دیا ہے۔ اپنے اندر کے لکھاری کی انہوں نے حفاظت کی اور اس عمر میں بھی اسے ہرا بھرا رکھا جب لوگ تخلیقی طور پر بنجر ہو جاتے ہیں۔ان کی تازہ ترین تخلیق ، پنجابی کا ناول "میں بھناں دلی دے کنگرے "گزشتہ برس 2023 میں شائع ہوا۔ تارڑ صاحب کی شخصیت اوریجنلٹی اور خالص تخلیقی بہاؤ کے اظہار کا ایک انمول امتزاج ہے۔تخلیق کا یہ بہتا دریا عمر کے 85ویں سال میں داخل ہوا ہے۔ تارڑ صاحب کے لاکھوں چاہنے والوں کی طرف جنم دن کی ڈھیر ڈھیر بدھائیاں!