اس وقت اسلامی دنیا میں جس شے کا حقیقی معنوں میں فقدان ہے وہ ایمان، اتحاد اور تنظیم ہے۔ اگرچہ یہ ہمارے عظیم محسن اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا سنہری قول اپنی قوم کو نصیحت اور وصیت ہے لیکن وطنیت اور قومیت کی عینک اتار کر دنیا کا جائزہ لیا جائے تو یہ تینوں عوامل شاز ہی کہیں دکھائی دیں گے۔ ایمان کے دعویدار تو ہم مسلمان ہی ہیں غیر مسلموں سے اسکا تقاضا کیا کرنا !! بہرحال اپنے اپنے مفادات کے لیے اتحاد اور تنظیم کا چولہ اوڑھنا ہم غیر مسلموں سے ہی سیکھ لیتے تو شاید بھلا ہو جاتا۔ اب غزہ پر جاری بربریت کو ہی دیکھ لیں تین ماہ ہونے کو ہیں ساری دنیا کے لوگ چیخ چیخ کر تھک چکے۔ ملکوں ملکوں احتجاج ، ریلیاں ، بائیکاٹ سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن ظالم اور اسکے حامی "اتحاد و تنظیم" کا مجسمہ بنے کھڑے ہیں اور ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ اپنے مفادات، اقتدار اور لالچ کی بیڑیوں میں بندھے ظالم و جابر طبقے کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور دوسری جانب ہم ہیں۔ عرب ممالک کی بے حسی کا تو کیا رونا روئیں کہ وہ اپنی مثال آپ ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان و ایران کا ان نازک اور پیچیدہ حالات میں گتھم گتھا ہونا سمجھ سے باہر ہے۔ گزشتہ دنوں ہونے والی جارحیت اور پیچیدگیوں پر اگرچہ قابو پا لیا گیا ہے اور دونوں ممالک کی جانب سے سفارتی، سیاسی اور عسکری سطح پر حالات بہتر ہونے لگے ہیں۔ ایران نے ہماری سرحدی حدود کی خلاف ورزی کیوں کی اور پاکستان نے ایک ہاتھ میں صبر و تحمل کا دامن تھامتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اینٹ کا جواب پتھر سے کیوں دیا ! یہ ساری کہانی سبھی جانتے ہیں دوہرانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ سوال ہمارے ذہنوں میں ضرور کلبلاتا ہے کہ آخر شدت پسند گروہوں کو ہم جیسے ممالک ہی کیوں ملتے ہیں یعنی پاکستان ، ایران، افغانستان ، عراق، شام، یمن وغیرہ میں ہی اپنے ٹھکانے کیوں بناتے ہیں۔ آخر ان دہشت گردوں کی اور کوئی جائے پناہ نہیں ؟ کرہ ارض پر انہیں اور کوئی جگہ نہیں ملتی ؟ اس کا سیدھا سادا سا جواب ہے کہ ہمارا دشمن ہماری کمزوریوں سے اچھی طرح واقف ہے ، وہ ہمارے کمزور پہلوؤں کی رسی کھینچتا ہے اور ہمارے ہی گلے کا پھندا بنا کر ہمیں ہچکولے کھانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ وطن عزیز میں الیکشن کی ٹرین پٹڑی پر چڑھ چکی ہے اگرچہ عوام کی اکثریت شدید مایوسی کا شکار ہے اور انہیں آنے والی کسی بھی نئی حکومت سے کوئی خاص توقعات نہیں ہیں۔ پاکستانی عوام ماضی کے تجربات سے اتنا سبق ضرور سیکھ چکے ہیں کہ کوئی بھی جماعت انکی مشکلات کو حل نہیں کر سکتی۔ سیاسی جماعتوں میں باہمی کشیدگی، الزام تراشی اور بیان بازی عروج پر ہے۔ عوام سے ووٹ حاصل کرنیکے تمام حربے استعمال کیے جا رہے ہیں اور آئندہ چند ہفتوں میں عوام کا فیصلہ بتا دے گا کہ انہوں نے کس کو منتخب کیا ہے۔ اس وقت پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور بیروزگاری ہے اور پچھلے پچھتر سالوں میں ان کا خاتمہ کوئی نہیں کر سکا۔ ایک جانب ہمارے اندرونی مسائل اور دوسری جانب ہمارے بیرونی معاملات! دیکھا جائے تو پاکستان حسب معمول اپنے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور ایسے میں ایران سے کشیدگی ایک فکر انگیز پہلو ہے۔ جبکہ افغانستان اور بھارت سے بھی تعلقات اتنے خوش آئندہیں۔ اس صورتحال میں ہمارے " ازلی رہنما اور خیرخواہ" امریکا نے ایران کو تنبیہ کی ہے اور دونوں ممالک کو بازرہنے کی نصیحت کی ہے کہ کوئی ایسا اقدام نہ اٹھائیں جس سے خطے کی کشیدگی بڑھے ( ان امن کے ٹھیکیداروں نے دنیا میں خود کتنی تباہی اور بربادی مچا رکھی ہے یہ انہیں نظر نہیں آتا ) بہرحال ہم نے ان کی نصیحت پلو سے باندھی اور عمل بھی کر دکھایا جو کہ اچھی بات ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگر تمام " امت مسلمہ" خصوصاً پاکستان، اسکے سیاستدان اور مقتدر طبقہ اتحاد اور تنظیم کو اپنے ایمان کا حصہ بناتے اور اپنے گریبان میں جھانکتے۔ میں پھر دوہراتا ہوں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اتحاد کا فقدان ہے۔ جب اپنے گھر کی دیواریں کمزور ہوں تو انہیں ڈھانا دشمن کیلیے بہت آسان ہوتا ہے اور تمام مسلم ممالک کیساتھ یہی مسئلہ ہے۔ ہمارے اندرونی اختلافات اور آپس کی بے اتفاقی و ناچاقی دشمنوں اور شرپسند عناصر کو بآسانی راستہ فراہم کرتی ہے کہ وہ ہماری ناک کے نیچے اپنے اڈے اور خفیہ ٹھکانے بنائیں اور ہماری کمزوریوں سے فائدہ اْٹھاتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کریں۔ اگرچہ ایک دوسرے کو آنکھیں دکھانے کے بعد پاکستان اور ایران دونوں نے پھر سے مصالحت اور مفاہمت کا چشمہ چڑھا لیا ہے لیکن اتنا کافی نہیں ہے۔ پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات کو مضبوط و مربوط کرنے کیلیے حتمی اور ٹھوس اقدامات اٹھانے ہونگے جنکا نتیجہ دیرپا اور پر اثر ہو۔ لیکن ایسا تبھی ممکن ہے جب ہمارے سیاسی، عسکری، معاشی حالات بہتر ہونگے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور اور قوم پرست اپنی قومیت کے نعرے پر نئی حکومت بنا تو سکتے ہیں لیکن چلا نہیں سکتے کیونکہ کامیاب سیاست اور ملکی ترقی کیلیے عدل و انصاف کے ترازو کو ایمان کے عوض بیچا نہیں جا سکتا اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ دھندا عام ہے۔ ہماری عسکری قیادت نے ایران کے خلاف مرگ بر سرمچار کے مشن کو آگے بڑھانے سے گریز کرتے ہوئے دانائی کا ثبوت دیا ہے لیکن ساتھ میں تنبیہہ کی ہے کہ ایران آئندہ ایسا قدم اْٹھانے سے پہلے سو بار سوچے۔ کیونکہ دو طرفہ تعلقات کی بحالی اور مسائل کے حل کے لیے دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کیونکہ ہم مذاکرات اور ایکشن دونوں کیلیے تیار ہیں اور اب ایران پر منحصر ہے کہ وہ کونسا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اگرچہ اس پیچیدہ صورتحال پر قابو پا لیا گیا ہے اور فی الوقت معاملہ ٹھنڈا پڑتا دکھائی دیتا ہے لیکن مستقبل میں ایسے اقدامات سے گریزاں رہنا دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ اس وقت جبکہ ساری دنیا کی نظریں غزہ میں جاری جنگ پر لگی ہیں ایسے میں یہاں سے کشیدگی کی خبریں ماحول کو مزید پریشان کن بنا سکتی ہیں۔ کیونکہ ان کا براہ راست اثر ملکی معیشت اور کاروباری طبقے پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ صرف چند دن ایران پاکستان بارڈر بند رہنے سے مہنگائی کی شرح مزید بلند ہوئی خصوصاً اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے کو ملا۔ لہٰذا عافیت اور سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے اور دیرپا امن و امان کے لیے تمام ہمسایہ ممالک کا کسی بھی تنازع سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔