(گزشتہ سے پیوستہ) 31 دسمبر 2023 کو والد محترم کو ہم سے بچھڑے دس سال سے ذیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن تخیل کی آنکھ سے دیکھیں تو ابھی کل کی بات لگتی ہے۔ انکے ساتھ گزرا ہر پل ایک قیمتی سرمائے کی مانند ہے۔ میں دعا گو ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اپنی بیشمار رحمتوں سے نوازے۔ زندگی یونہی رواں دواں رہے گی کارواں کے ساتھی ملتے اور بچھڑتے رہیں گے خوشی اور غم کا پلڑہ کبھی اٹھتا اور کبھی جھکتا رہے گا۔ ایک اور سال ہماری زندگیوں سے رخصت ہوا اور بلاشبہ اس سال ساری دنیا نے خوشیاں کم اور غم زیادہ دیکھے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ سال ہر لحاظ سے عوام الناس پربھاری گزرا ہے۔ مالی و معاشی بحرانوں کیساتھ سیاسی عدم استحکام اور جنگ کی صورتحال سے دوچار ممالک نے عالمی سیاسی منظرنامے پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ لوگ بہت بے چینی اور بے یقینی کا شکار ہیں پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ بہرحال ، مختصر یہ کہ زندگی میں کچھ حادثات ہمارے دل ودماغ گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں اور کسی بھی ٹریفک حادثے میں انسانی جانوں کے ضیاع کی خبر مجھے بہت رنجیدہ کر دیتی ہے۔ میں نے روڈ سیفٹی پراجیکٹ کا آغاز ایک مشن سمجھ کر کیا ہے اور میں دعا گو ہوں کہ یہ پراجیکٹ ہمارے ٹریفک نظام میں جدت اور مثبت تبدیلی کا باعث بن سکے۔ نظام میں بھلائی اور بہتری کا امکان کس قدر کامیابی حاصل کرتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن میں اور میری ٹیم بہت محنت و مشقت سے روڈ سیفٹی پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں اور ہماری ٹیم کا حالیہ دورہ لاہوراسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لاہور میں مختلف یونیورسٹیوں ، تعلیمی اداروں میں آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور اجاگر کرنا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ اس ضمن میں میری چند تجاویز ہیں کہ موٹر سائیکل اور رکشہ پر فوری پابندی عائد کی جانی چاہیے کیونکہ زیادہ تر حادثات کی بنیادی وجہ یہی رکشے، موٹر سائیکل اور تھری ویلرز ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جائے۔ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ میں کمی اور پارکنگ ایریاز کی حدود کو بڑھایا جائے۔ تیز رفتاری ، ون ویلنگ ، کسی بھی سواری پر ضرورت سے زائد سواریوں پر بھاری جرمانہ اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر سزائیں مختص کی جائیں۔ اگرچہ اس ضمن میں گزشتہ دنوں چند اقدامات اٹھائے گئے ہیں جس میں سب سے قابل تحسین اقدام کم عمر ڈرائیورز کے خلاف کریک ڈاؤن شامل ہے۔ دو ماہ قبل لاہور میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچے کی تیز رفتاری کے باعث ایک ہی خاندان کے چھ افراد ہلاک ہو گئے اور اس اندوہناک واقعے نے ہمارے معاشرے کی بے حسی اور غیر سنجیدہ رویوں کو بری طرح بے نقاب کیا ہے۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ پڑھے لکھے والدین اور باشعور افراد اپنے ہاتھوں اپنے بچوں کی زندگی خطرے میں کیسے ڈال سکتے ہیں؟ کم عمری میں اپنے بچوں کے حوالے گاڑی کرنا انہیں موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اور یہی ہوا چند لمحوں کی غفلت نے کتنے خاندانوں کے چراغ گل کر دیے۔ وقتی تھرل اور تیز رفتاری کے شوق نے اس بچے کی زندگی پر کتنے منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور وہ ساری زندگی اس جان لیوا حادثے کو بھول نہیں پائے گا۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ چھ افراد کی جان لینے کے باوجود لوگ سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ کم عمر ڈرائیور کی گرفتاری سے خاندان کی بدنامی تو ایک طرف ، اس ذہنی اور جسمانی اذیت کا کوئی تصور نہیں کر سکتا جو بچے کے والدین کو جھیلنی پڑی۔ جبکہ حقیقتاً اس حادثے کے اصل ذمہ دار والدین ہی ہیں اور ہمارے معاشرے کے دیگر والدین کے لیے بھی اس میں سبق پوشیدہ ہے۔ لاہور شہر میں ہونے والے اس حادثے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو شعور بھی دیا ہے۔ لاہور پولیس نے اس حوالے سے سخت اقدامات اٹھائے ہیں اور اب کم عمر ڈرائیورز اور بناء لائسنس افراد کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کیا ہے جو قابل تحسین اقدام ہے۔ ہماری ٹیم کا لاہور میں حالیہ دورہ روڈ سیفٹی پراجیکٹ کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس ضمن میں سمارٹ پارکنگ ، سمارٹ لائسنسنگ اور سمارٹ ٹیکنالوجی پر کام کیا جارہا ہے۔ ہماری ٹیم کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں صرف ڈھائی فیصد لوگوں کے پاس باقاعدہ ٹریننگ کے بعد ڈرائیونگ لائسنس موجود ہیں جبکہ باقی ستانوے فیصد نے کبھی ڈرائیونگ کی باقاعدہ ٹریننگ حاصل نہیں کی۔ ہمارے ہاں اکثریت گھروں میں رشتہ داروں، دوست احباب سے ڈرائیونگ سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باقاعدہ ٹرینڈ اور پروفیشنل ڈرائیور نایاب ہیں۔ روڈ سیفٹی پراجیکٹ کے ذریعے ہماری بھرپور کوشش ہے کہ سمارٹ ڈرائیونگ لائسنس تک سب کی رسائی ممکن ہو۔ یہ لائسنس صرف وہی حاصل کر سکے گا جو باقاعدہ پروفیشنل ٹریننگ حاصل کرے گا۔ جو روڈ پہ آکے قوانین کی خلاف ورزی کرے گا، ٹریفک قوانین کو پامال کرے گا اسے فوری جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ جتنی زیادہ غلطیاں ، اتنا جرمانہ ! اسی طرح غیر ذمہ دار ڈرائیور حضرات کا ڈرائیونگ لائسنس خودبخود منسوخ ہو جائے گا۔ جب تمام سسٹم آٹومیٹک اور جدید ٹیکنالوجی سے منسلک ہو گا تو تمام افراد کیلئے اسکی پیروی لازمی ہوگی۔ اس طرح گاڑی چوری کے واقعات میں بھی نمایاں کمی ہوگی کیونکہ یہ جدید آٹو لائسنس صرف رجسٹرڈ گاڑیوں کو دئیے جائیں گے۔ نیز اس پراجیکٹ کا مقصد سمارٹ ٹرانسپورٹیشن سسٹم متعارف کرانا ہے۔ اس میں پہلے سے چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ ، بسوں کو اور اس سے منسلک افرادی قوت کو اس جدید نظام کے تحت منتقل کیا جائے گا۔ ٹریفک نظام سے منسلک تمام افرادی قوت کو جدید نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سمارٹ روٹ، سمارٹ جرنی پلان، سمارٹ پارکنگ سسٹم میں ڈھالا جائے گا۔ پاکستان میں ستر فیصد حادثات موٹر سائیکل کی وجہ سے ہوتے ہیں ان میں کمی انتہائی ضروری ہے۔ تمام وہیکل پر کاربن ٹیکس لگا دیا جائے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے تو ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ٹریفک حادثات میں بھی نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ لیکن ان تمام اہداف کی تکمیل تبھی ممکن ہے جب تمام متعلقہ ادارے ہمارے ساتھ تعاون کریں اور ٹریفک قوانین میں جدت پسندی کو فروغ دینے کے لیے ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ اس ضمن میں ان تمام افراد کا تہہ دل سے مشکور ہوں جو ہمارے پراجیکٹ اور اسکو کامیاب بنانے کے لئے تمام تحقیقی مراحل میں ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔