میری مادری زبان سرائیکی ہے۔ میرے والد اور والدہ دونوں کی زبان سرائیکی ہے۔ والدہ کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا تو ان کی سرائیکی میں ڈیرے کا مخصوص رنگ تھا، چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ۔ گھر میں بچپن میں اردو بولتے تھے۔ باہر کا ماحول چونکہ سرائیکی کا تھا، اس لئے ہم بھائیوں کی سرائیکی رواں ہوتی گئی اور پھر بعد میں گھر میں بھی سرائیکی بولنے لگے۔ میری اہلیہ بھی سرائیکی ہے، ہمارے درمیان بھی کبھی اردو اور کبھی سرائیکی ہی چلتی ہے۔ یہی بچوں کے ساتھ معاملہ ہے۔ اردو میرے اظہار کی زبان ہے، اس سے محبت ہے ، اسی نے میری بطور لکھاری، بطور صحافی شناخت بنائی۔ پنجابی میں نے شعوری طور پر سیکھی، لاہور آکر ہر ایک سے پنجابی بولی، حتیٰ کہ اس میں روانی آ گئی اور لہجہ بھی کسی حد تک پنجابی بن گیا یا شائد سرگودھوی پنجابی سا ہوگیا،(سرائیکی،، پنجابی کے مکسچر سے )۔لاہور میں اپنے ستائیس سالہ قیام کے دوران میں نے پنجابی خوب بولی، اتنی کہ کئی بار پنجابی میں سوچنے لگتا ہوں۔ مجھے پنجابی زبان، پنجابی شاعری اور موسیقی سے محبت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت طاقتور ابلاغ اور اظہار ہے پنجابی شاعری اور موسیقی کا۔ پشتو سیکھنے سے مجھے بڑی دلچسپی ہے، مگر سیکھ نہیں سکا۔ اس کا افسوس ہے۔ خواہش ہے کہ پشتو سیکھی جائے، کیونکہ یہ میرے اجداد کی زبان ہے۔(ہم خاکوانیوں کے اجداد صدیوں پہلے افغان صوبہ ننگرہار کے علاقہ خگیان سے آئے تھے، اسی مناسبت سے پہلے خوگانی اور پھر خاکوانی کہلائے ۔ )سرائیکی اور سندھی میں کچھ لفظ مشترک ہیں تو تھوڑی سی سندھی سمجھ آ جاتی ہے، سکرپٹ پڑھنے میں کچھ دقت ہوتی ہے مگر تھوڑی محنت کی جائے تو شائد جلد سیکھ جائوں گا۔ بلوچی زبان سے بھی مجھے دلچسپی ہے، کاش اسے بھی سیکھ پائوں۔ میرے آبائی شہر میں سرائیکیوں کی اکثریت ہے، مگر پنجابی گھرانے بھی موجود ہیں۔ کئی دوست پنجابی تھے، محلے دار بھی، بلکہ جب اپنا گھر بنایا تو ملحقہ دیوار والے ہمسایے پنجابی تھے، بہت ہی محبت کرنے والی ارائیں فیملی۔ اس لئے مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ سرائیکی اور پنجابی دونوں ایک دوسرے سے کس قدر مختلف زبانیں ہیں۔ دو الگ زبانیں ہی نہیں بلکہ مختلف تہذیب اور بالکل ہی علیحدہ کلچر بھی ہے۔ کسی بھی سرائیکی علاقے میں رہنے والا دس سال کا بچہ بھی اس فرق کو سمجھتا ہے۔ آپ احمد پورشرقیہ، لیاقت پور، خان پور، مظفر گڑھ، بہاولپور، صادق آباد ، لودھراں، دنیا پور، کہروڑ پکا ، میلسی،جلا ل پور پیروالا وغیرہ کے شہروں میں کسی دس بارہ سالہ بچے سے بھی پوچھیں کہ اس محلے میں سرائیکی گھر کون سے ہیں اور پنجابی گھر کون سے، تو وہ فوری بتا دے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف زبانیں الگ ہیں بلکہ کلچر، تہذیب، حتیٰ کہ کھانے پینے کی بہت سی ڈشیں بھی۔سرائیکی سوہانجنا(مورنگا)، بھے، گوار، سیٹو، پھگن وغیرہ بڑے ذوق شوق سے بنائیں اور کھائیں گے ۔وہاں رہنے والے پنجابی گھرانوں کی یہ ڈشز نہیں ہیں۔لاہور میں تو لوگ بھے کے نام سے بھی واقف نہیں اور سوہانجنا کے نام سے انہیں اس کے پتوں کے قہوے کا پتہ ہے، یہ معلوم نہیں کہ اس کی کلیوں، پھولوں کا سالن بنتا ہے ، بڑا لذیذ۔ فنون لطیفہ میں بھی یہ تقسیم ہے۔ سرائیکی وسیب کی کوئی شادی اٹینڈ کر کے دیکھ لیں۔ بچیوں کے گانوں، موسیقی ، بولیوں وغیرہ، لڑکوں کی ڈالی گئی جھمر دیکھ لیں۔ پنجابی علاقے میں لڈی اور بھنگڑا چلتا ہے، سرائیکیوں میں وہی حیثیت جھمر کی ہے۔ سرائیکی موسیقی کی جھمر سے فطری مناسبت ہے جبکہ پنجابی گانوں، تان اور ڈھول کی مخصوص تھاپ کی مناسبت بھنگڑے سے ہے۔ دونوں کا اپنا لطف اور اپنی خوبصورتی ہے، دونوں روح کی تاروں کو چھیڑتے ہیں، مگر مختلف آہنگ سے۔سرائیکی اور پنجابی موسیقی میں فرق جاننا کون سا مشکل ہے۔ پٹھانے خان کی کافیاں سن لیں، زاہد پروین، مستانہ پروانہ، حسینہ ممتازکو سن لیں یا پھر موہن بھگت کی لولی(لوری) سن لیں۔جبکہ عالم لوہار کی جگنی سن لیں، اقبال باہو کی ہیر ،عاشق جٹ کی اونچی تانیں وغیرہ۔ سرائیکی وسیب میںسرائیکی پنجابی الگ شناخت بڑی واضح ہے اور ہر کوئی اس کو سمجھتا، جانتا مانتا ہے، حتیٰ کہ الیکشن میں یعنی بلدیاتی الیکشن میں بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ فلان امیدوار سرائیکی ہے اور فلان پنجابی۔ لوگ ووٹ ڈالتے ہوئے یہ نکتہ بھی سامنے رکھتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ سرائیکی وسیب میں رہنے والے سرائیکیوں اور پنجابیوں میں تلخی اور نفرت الحمداللہ موجود نہیں۔ اپنی زبانوں، کلچر، تہذیب اور قوم کو الگ الگ سمجھتے ہوئے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں اور بہت سے امور میں مشترکہ حکمت عملی بناتے ہیں۔ یہی ماں بولی تہوار کی اصل روح ہے۔ ہر ایک کو اپنی مادری زبان بولنے، اس کی شناخت رکھنے اور اس کا احترام کرنے کا حق حاصل ہے۔ آپ دوسروں کو یہ حق دیں۔ کسی کی زبان یا قوم کے بارے میں آپ کو نہیں، بلکہ اس قوم کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جو بھی شناخت بتائے ، اسے آپ تسلیم کریں۔یہ ہر فرد، گروہ یا قوم کا بنیادی حق (فنڈامینٹل رائٹ)ہے کہ وہ اپنی شناخت طے کر سکے، اپنے نام کا تعین کرے۔ یہ صرف انہیں ہی کرنا ہے، کسی اور کو نہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق اٹس سو سمپل۔ اسی وجہ سے مجھے کبھی اس پر اعتراض نہیں رہا کہ جھنگ والے خود کو جھنگوچی کیوں کہتے ہیں؟بعض سرائیکی قوم پرست جھنگ پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر اس سے اختلاف ہے۔ میرے نزدیک یہ جھنگ کے لوگوں کا حق ہے کہ وہ اپنی شناخت طے کریں۔ ہمیں اس کا احترام کرنا ہوگا۔اسی طرح اگر میانوالی والے یا کسی بھی دوسرے علاقے کے لوگ خود کو سرائیکی نہ کہیں تو کم از کم مجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔ میں صرف اسے ہی سرائیکی مانتا ہوں جو خود کو سرائیکی کہلانا چاہتا ہے۔ اگر کوئی خود کو سرائیکی نہیں پنجابی کہنا چاہتا ہے یا الگ سے کسی شناخت کا علمبردار ہے تو ہم اس کی اس شناخت کو تسلیم کرتے ہیں۔ میں پوٹھوہاری، ہندکو اور دیگر زبانوں کی شناخت کو بھی تسلیم کرتا ہوں۔ وہ خود کو پوٹھوہاری کہلانا چاہیں یا خود کو پنجابی کہیں، یہ ان کی صوابدید اور ان کا فیصلہ ہوگا۔ ہمیں اس میں ٹانگ اڑانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ بلوچستان گیا تو اس پر حیرت ہوئی کہ بہت سے بڑے بڑے قبیلے اور نامور سردار بروہی ہیں جبکہ وہ اپنی شناخت بلوچ بتاتے ہیں۔خان قلات سمیت ، زہری، رئیسانی ، مینگل اور بہت سے بڑے نامور قبائل اور سردار بروہی ہونے کے باوجود پوری بلوچ قوم کی قیادت کرتے رہے ہیں۔ ان کی سیاسی شناخت بلوچ ہے۔ پتہ کیا تو علم ہوا کہ بروہی اور بلوچی زبانیں ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہیں بلکہ کہاجاتا ہے کہ بلوچ اور بروہی قوموں کی تاریخ بھی مختلف ہے، ایک شائد آرین کہلاتے ہیں ، بروہی شائد دراوڑین یا کچھ اور۔سیاسی طور پر مگر دونوں اکھٹے ہیں، خود کو بلوچ کہتے ہیں۔ میرا اصولی نکتہ واضح ہے کہ یہ حق بروہی عوام کا ہے۔ وہ خود کو بلوچ کہلاتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ ہم ان کے اس حق کا احترام کرتے ہوئے انہیں وہی کہیں گے جو وہ خود کو کہلانا پسند کریں گے۔ میں ذاتی طور پر اس کے بھی حق میں نہیں کہ سرائیکی علاقے میں رہنے والے نان سرائیکیوں کو زبردستی سرائیکی کہا جائے۔ آخر کیوں ؟ اسی دلیل کی بنیاد پر میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ سندھ میں رہنے والے نان سندھیوں کو بھی سندھی کہلانے پر مجبور کرنا غلط ہے۔ وہ ڈومیسائل کی بنیاد پر تو سندھی ہیں، مگر وہ سندھی قوم نہیں۔سندھ میں رہنے والے اردو سپیکنگ یا مہاجر آبادی کا اپنا الگ کلچر، زبان اور تہذیب ہے۔ اس کی علیحدہ شناخت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ تاہم علیحدہ شناخت کی بنیاد پر سندھ کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بالکل ہی الگ معاملہ ہے۔ صوبوں کی تقسیم یا نئے صوبے بنانے کے معاملے میںاب زبان یا قومیت کوبنیادنہ بنایا جائے تو بہتر ہے۔ پہلے ایسا ہوا ، مگر تب حالات مختلف تھے۔ اب نئے صوبے بننے چاہئیں مگر وہ پسماندگی یادارالحکومت سے جغرافیائی دوری جیسے فیکٹرز کی بنیاد پر ہونے چاہئیں یعنی خالصتاً انتظامی تقسیم۔ جیسے جنوبی پنجاب صوبے کا پلان ہے، وہ صرف انتظامی بنیاد پر بہاولپور، ملتان اور ڈی جی خان ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کا منصوبہ ہے۔ میں ڈومیسائل کے اعتبار سے پنجابی ہوں، میری مادری زبان سرائیکی ہے جبکہ اردو میری لکھنے کی اورتخلیقی زبان ہے، اپنا اظہار میں اردو میں بہتر کر سکتا ہوں۔ البتہ میں کبھی سرائیکی اور پنجابی زبانوں میں بھی ان شااللہ لکھوں گا کہ مجھے لگتا ہے دونوں میں اپنا اظہار کر سکتا ہوں۔ لکھنے اور پڑھنے میں تھوڑی دقت ہے تو وہ کچھ مشق سے دور ہوجائے گی۔ یہ تینوں زبانیں میری شخصیت ، میری زندگی کا اپنی الگ شناخت کے ساتھ حصہ ہیں، ان تینوں سے محبت ہے۔ میں ان تینوں کے بولنے والوں سے ایک خاص انداز کا تعلق اور رشتہ رکھتا ہوں۔ میرے نزدیک ماں بولی دن کا یہی مقصد اور یہی پیغام ہے کہ ہر زبان کی شناخت کا احترام کریں۔ ہر زبان محبت کے شیرے سے گندھی ہے،آپس میں محبتیں بانٹیں۔ نفرت یا کشیدگی پیدا نہ ہونے دیں۔