برصغیر پاک و ہند سے انگریز کا رخصت ہونا، جنگِ عظیم دوّم میں اتحادی افواج کی فتح کے بعد جنم لینے والے ایک نئے معاشی نوآبادیاتی بندوبست کے تحت ایک طے شدہ حقیقت بن چکا تھا۔ امریکہ اب ایک نئی عالمی طاقت تھی، جس نے اپنے بنائے ہوئے نئے عالمی مالیاتی نظام کے ذریعے اب دنیا پر حکومت کرنے کے تمام انتظامات مکمل کر لئے تھے، جس کے تحت یورپ کی پرانی نوآبادیاتی طاقتوں کو اپنے زیرِ نگیں علاقے چھوڑنے کے لئے کہہ دیا گیا تھا۔ جنگِ عظیم دوم سے تباہ شدہ یورپ کی نوآبادیاتی طاقتیں برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ کی کیا مجال کہ وہ اس امریکی خواہش اور واضح حکم کی سرتابی کرتیں۔ وہ تو خود اپنی از سرنو معاشی بحالی کے لئے امریکہ کے سرمائے اور مدد کی محتاج اور دستِ نگر تھیں، جو انہیں مارشل پلان کے ذریعے فراہم کر دیا گیا تھا۔ صرف معاشی مدد نہیں، بلکہ نیٹو کے تحت امریکہ نے ان عالمی طاقتوں کے تحفظ کا بھی ذمہ لے لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف دس سال کے اندر اندر ان یورپی طاقتوں نے اپنی کالونیوں سے اپنا بوریا بستر لپیٹا اور رُخصت ہو گئیں۔ ایشیا اور افریقہ میں لاتعداد نئے ملک یا قومی ریاستیں وجود میں آ گئیں۔ اس ’’جبری آزادی‘‘ کے ماحول میں برصغیر کی آزادی بھی نوشتۂ دیوار تھی۔ اس آزادی کے لئے تمام ہندو مسلمان لیڈر گذشتہ نصف صدی سے مشترکہ جدوجہد کر رہے تھے۔ مولانا محمد علی جوہرؒ سے لے کر ابوالکلام آزادؒ اور سر آغا خان سے لے کر مولنا حسین احمد مدنیؒ تک کون تھا جس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات آئی ہو کہ مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ملک بھی وجود میں آ سکتا ہے۔ مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں ہی ہو چکا تھا لیکن علیحدہ مسلم وطن کا تصور کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ ان تمام رہنمائوں کی جدوجہد اور خلوصِ نیت پر کسی کو کلام نہیں لیکن سرزمین ہندوستان پر علیحدہ مسلمان ملک کا خواب پیش کرنے کے لئے ایک ایسی شخصیت نے جنم لیا جس کا دعویٰ تھا: گر دلم آئینۂ بے جوہر است گر بحر فہم غیرِ قرآن مضمر است اے فروغت صبح اعصار و دہور چشمِ توبینندۂ ما فی الصدور پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن ایں خیاباں را زخارمِ پاک کن روزِ محشر خوار و رُسوا کن مرا بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا (اگر میرے دل کا آئینہ کسی خوبی سے خالی ہے۔ اگر میرے کلام میں قرآنِ مجید کے سوا کوئی ایک حرف بھی ہے۔ تو اے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی روشنی تمام زمانوں کے لئے صبح کا سروسامان ہے اور آپ کی آنکھ سینے کے اندر کی سب چیزیں دیکھ رہی ہے۔ آپ میری فکر کی عزت و حرمت کا پردہ چاک کر دیجئے اور اس پھولوں کی کیاری سے میرے جیسے کانٹے کو نکال کر اسے پاک کر دیجئے۔ قیامت کے دن مجھے ذلیل و رُسوا ہونے دیجئے اور مجھے اپنے پائوں کے بوسے سے بھی محروم کر دیجئے)۔ یہ دعویٰ اس شخص کا تھا جس کا پورا کلام قرآنِ حکیم کا ترجمان تھا۔ ملتِ اسلامیہ کا وہ حدّی خوان… علامہ اقبالؒ، جس کی بصیرت کی آنکھ نے اسے اس برصغیر کی وہ تقدیر دکھا دی تھی کہ ہندوستان کی سرزمین پر ایک ایسے خطے کا ظہور ہونے والا ہے جس کی وجۂ تخلیق لا الہ الا اللہ ہو گی۔ تقدیر پڑھنے کی یہ بصیرت اللہ اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو تمہیں وہ دے گا جس سے حق کو باطل سے جدا کر لو گے‘‘ (الانفال: 75)۔ یعنی اللہ سے ڈرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کا یہ انعام ہے کہ وہ بندے کو فرقان عطا فرماتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ایسے نور سے بھر دیتا ہے جس سے وہ حق اور باطل کے درمیان فرق کر لیا کرے۔ اسی آیت کی وضاحت سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ہوتی ہے۔ ’’حضرت ابو سعید خذری رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’مومن کی فراست و دانائی سے ڈرو، کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہوتا ہے‘‘ (سنن الترمذی، طبرانی، التاریخ الکبیر امام بخاری)۔ اس کیفیت کو اقبالؒ نے اپنی مشہور نظم ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت‘‘ میں یوں بیان کیا ہے: تقدیرِ اُمم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ اس برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں کی تقدیر کیا ہے،علامہ اقبالؒ نے اپنے 29 دسمبر 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد میں اس کا اشارہ دے دیا تھا۔ پورے خطبے کو پڑھتے چلے جایئے آپ کو جہاں اسلام کے تصورِ وطنیت و قومیت اور طرزِ زندگی کے بارے میں اُصولی گفتگو ملے گی، مسلمانانِ ہند کے اسلامی تشخص کا تصور ملے گا، ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوئوں کے باہم تعلقات کا طریقِ کار نظر آئے گا، اور ان سب کے ساتھ ساتھ اس وقت تک ہونے والی جدوجہدِ آزادی اور انگریز حکومت سے مذاکرات کی تفصیل بھی ملے گی لیکن جیسے ہی اس مردِ مومن علامہ اقبالؒ نے یہ تصور پیش کیا کہ وہ علاقے جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جغرافیائی طور پر ملحق ہیں اور جہاں مسلمانوں کی اکثریت رہتی ہے، انہیں ایک علیحدہ ریاستوں کی حیثیت حاصل ہونی چاہئے۔ یہاں اقبالؒ کا لہجہ ایک نظریہ ساز والا نہیں رہتا بلکہ ایک پیش گوئی کرنے والے شخص کا ہو جاتا ہے جو اپنی فراست سے دیکھ رہا ہے کہ اس خطے میں مسلمانوں کی علیحدہ ’’قوم‘‘ کی شناخت اُبھرنے والی ہے۔ اسی لئے اقبالؒ نے یہاں لفظ "Destiny" یعنی ’’مقدر‘‘ استعمال کیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ایک دور اندیش شخص جسے اللہ نے مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت عطا کی ہو وہ باطن کی آنکھ سے دیکھ رہا ہے کہ ہندوستان کا مستقبل کیا ہے اور کیسے یہ خطہ دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اقبالؒ نے اس خطبے میں ’’ریاست‘‘ نہیں بلکہ ریاستوں (States) کا لفظ استعمال کیا ہے، یعنی وہ علاقے جو مسلمانوں کی اکثریت رکھتے ہیں اور جغرافیائی طور پر جڑے ہوئے ہیں ان کو ملا کر مسلمان ریاستیں وجود میں آئیں گی۔ اقبالؒ کی یہ پیش گوئی آج حرف بہ حرف پوری ہوتی نظر آتی ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش دو علیحدہ علیحدہ اور ایک دوسرے سے دُور علاقے تھے مگر آج یہ دو مسلمان ریاستیں ہیں۔ لاکھ کہیں کہ بنگلہ دیش بنگالی قومیت کی بنیاد پر وجود میں آیا، لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ 1971ء میں مسلمان بنگالی اور ہندو بنگالی کے فرق سے ایک دفعہ پھر برصغیر میں دو قومی نظریہ زندہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں بسنے والے ہندو بنگالیوں کو بنگالی کہا جاتا ہے جبکہ بنگلہ دیش والے بنگالی مسلمانوں کو قومیت کا فریب دینے کے لئے بنگلہ دیشی کہا جاتا ہے۔ اقبالؒ کے کلام میں فراستِ مومن کی جھلک جابجا نظر آتی ہے اور اس کے اشعار نہ صرف مسلمان اُمت بلکہ دنیا بھر کے مستقبل کی جانب بھی اشارے کرتے ہیں۔ تنگیٔ دامانِ کالم کی وجہ سے دو اشعار اور ان میں موجود پیش گوئیوں کا موجودہ دور میں درست ہونا، اقبالؒ کی بصیرت کا واضح اعلان ہے : ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے گراں خواب چینی سنبھلنے لگے جس دور میں یہ شعر لکھا گیا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ افیون زدہ چینی معاشرہ ایک عالمی طاقت بن جائے گا۔ جدید دور کے مشرق و مغرب کے معرکہ پر یہ شعر کس قدر صادق آتا ہے: اللہ کو پامردیٔ مومن پہ بھروسہ ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا کیا بیس سالہ دہشت گردی کے خلاف مغرب کی مسلم اُمہ کے خلاف جنگ اور اس جنگ میں افغان مسلمان ملّت کے مومنوں کی پامردی نے ثابت نہیں کیا کہ اقبالؒ کس طرح اللہ کی نصرت اور مدد کی خوشخبری دے رہا تھا۔