پاکستان میں سیاست ہر دور میں تقسیم نظر آتی رہی ہے۔ اب انتخابات کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی بھی تقسیم ہوچکی ہے۔ بظاہر دو بڑی جماعتیں ن لیگ اورپیپلزپارٹی، ق لیگ ایم کیو ایم ،بی اے پی اور استحکام پاکستان پارٹی کو ملا کرحکومت بنا رہی ہیں جبکہ اپوزیشن میں سنی اتحاد کونسل (حمایت یافتہ پی ٹی آئی) جے یو آئی ف، بلوچ و پشتون قوم پرست ہیں ۔حکومت اور اپوزیشن کی جماعتوں کو انتخابی نتائج پر تحفظات ہیں۔ سیاسی روٹھنا اور منانا بھی چل رہا ہے۔ حال ہی میں حکومتی اتحاد کو لگا کہ حکومت سازی میں وہ مولانا فضل الرحمان کو نظر انداز کرگئے تھے اب منانا ضروری ہے۔ مولانا ابھی مانے نہیں ناراض ہیں لیکن وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں ،کرنا چاہتے ہیں ریاست کے نظام کے اندر رہ کر کرنا چاہتے ہیں جو انکا سیاسی آئینی جمہوری حق ہے ۔ یہ روٹھنا منانا چلتا رہیگا لیکن پی ٹی آئی چاہتی ہے نہ حکومت سے بات ہو نہ ریاست کے نظام کو ماننا پڑے بس کوئی عالمی طاقت آکر کہہ دے یہ ریاست ناکام ہے اور انکی سیاسی اناکو تسکین پہنچے۔ اس کے بغیر یہ جماعت یا انکا بانی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ انیس سو ستر سے دو ہزار چوبیس تک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے کوئی ایسے انتخابات نہیں ہیں جن کے نتائج کو تمام سیاسی قوتوں نے تسلیم کیا ہوتو حالیہ انتخابات میں بھی جو نتائج آئے ہیں اس پر تمام سیاسی قوتوں کو تحفظات ہیں ۔اگر ن لیگ اور پیپلزپارٹی جو دو بڑی جماعتوں کی صورت میں سامنے آئی ہیں ان سے بھی پوچھا جائے تو انہیں بھی تحفظات ہیں ۔آزاد اراکین جنہیں پی ٹی آئی کے کھاتے میں گنا جاتا ہے وہ سمجھتے ہیں ان سے دو تہائی اکثریت چھینی گئی۔ ن لیگ سمجھتی ہے کہ وہ سادہ اکثریت کے قریب تھے جس سے انہیں دور کیا گیا۔ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے انہیں پنجاب کے دل لاہور میں بلاول کی کامیاب نشست سے دور کیا گیا اور خیبر پختونخوا میں بھی انکے ساتھ زیادتی ہوئی۔ جے یو آئی سمجھتی ہے یا الزام لگاتی ہے کہ ان کا راستہ روک کر پی ٹی آئی کو انتخاب جتوایا گیا۔ بلوچ اور پشتون قوم پرست سمجھتے ہیں انہیں بھی دیوارسے لگا دیا گیا ہے لیکن یہ سب الزام کس پر دھرتے ہیں دامے درمے سخنے وہ اس سب کا الزام مقتدرہ یعنی اسٹیبلشمنٹ پر عائد کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کہتی ہے کہ ن لیگ کی سہولت کاری کی گئی۔ چلیں مان لیا یہ کیا گیا تو کیا اسٹیبلشمنٹ نے یہ سب کچھ پی ٹی آئی کیخلاف خیبر پختونخواہ میں کیوں نہیں کیا ؟وہاں پی ٹی آئی کیسے کلین سویپ کرگئی اور پنجاب میں جو نتائج پی ٹی آئی نے لئے اگر مقتدرہ نہ چاہتی اور ن لیگ کی سہولت کاری کرتی تو کیا نتائج ایسے ہوتے؟ ان انتخابات میں دو سے تین چیزیں اہم ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی الیکشن تھا۔ ان انتخابات میں عدلیہ نے انتخاب کروانے سے معذرت کرلی تھی جبکہ انتخابات سے قبل فوج اور اسٹیبلشمنٹ کیخلاف ایک ایسا ماحول پاکستان تحریک انصاف بنا چکی تھی کہ دوبارہ ایک ایسی صورتحال پیدا ہو جیسی نؤ مئی کو پی ٹی آئی نے بنادی تھی۔ فوج یا اسٹیبلشمنٹ کو انتخابات کے موقع پر دہشت گردی کی کارروائیوں کا ادراک اور انٹیلی جنس اطلاعات تھیں ۔بلوچستان میں بالخصوص ریاست اور اسکے پارلیمانی نظام سے نفرت کی ایک ایسی ہی مہم جاری تھی جیسی مہم پی ٹی آئی دیگر صوبوں میں چلا رہی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ پی ٹی آئی اس نفرت کے پرچار کے ساتھ اسمبلی جانا چاہتی تھی اور بلوچستان کی چند قوتیں بلوچستان کی عوام کو ریاست اور پارلیمانی نظام سے دور دھکیلنے کے خواہاں تھیں لیکن ایک انگریزی مقولے کے مفہوم کے مطابق طریقہ کار میں فرق کیساتھ یہ دونوں سرگرمیاں ریاست کو ناکام قرار دینے کیلئے جاری تھیں جس کے سبب ریاست نے حکمت عملی کے تحت فوج اور سکیورٹی اداروں کی تعیناتی سے معذرت کے بجائے حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے پر امن انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا ۔جب نو سے پانچ بجے تک ساری چیزیں کنٹرول میں رہیں، چند ایک واقعات جو ماضی میں بھی انتخابات میں ہوئے ایسے واقعات سے ہٹ کر ،کچھ نہیں ہوا تو جب ملک میں موبائل اور انٹرنیٹ نظام بند تھا اچانک شام کے چھ بجتے ہی میڈیا اور سوشل میڈیا پر فکس پلان کے ذریعے ایک ایسا ماحول بنایا گیا کہ ایک سیاسی جماعت نے ملک میں ہونے والے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی سمیٹ لی ہے۔ ابھی دس فیصد نتائج کی گنتی نہیں ہوئی تھی تو شادیانے بجادیئے گئے کیونکہ پلان کے تحت نتائج کو ماننا نہیں تھا اور وہی کیا گیا جہاں سیاسی جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات چاہتی ہیں۔ بالخصوص پی ٹی آئی کو یہ بھی جواب دینا چاہئے اور ثابت کرنا چاہئے جب ملک میں مواصلاتی رابطہ تھا نہیں تو انہیں نتائج کیسے حاصل ہورہے تھے انتخابات سے قبل اور انتخابات کے بعد بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو گزشتہ دو ڈھائی برسوں سے کسی چیز سے سروکار نہیں ۔ صرف بانی پی ٹی آئی اپنی سیاسی انا کی تسکین کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ایسا انہوں نے پہلی بار نہیں کیا، بطور سیاستدان ماضی میں برطانوی عدالت میں ریاست پاکستان کیخلاف گواہ کے طور پر پیش ہوچکے ہیں، بطور سربراہ مملکت ایران میں کھڑے ہوکر وہ کچھ کہہ چکے جسکا خمیازہ ریاست کو بھگتنا پڑا اور اپنی عدم اعتماد کو بھانپتے ہوئے موصوف بانی پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف کیساتھ طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ سائفر کا جھوٹا بیانیہ بنا کر تو رہی سہی تمام کسر پوری کردی تاکہ ریاست ڈیفالٹ کرجائے، ریاست ناکام ہوجائے تو ہو جائے انکی سیاسی انا کو ٹھیس نہ پہنچے ۔جب اس میں ناکامی ہوئی تو آئی ایم ایف کو اپنی دو صوبائی حکومتوں کے ذریعے خطوط لکھوانے کے فرمان جاری کئے تاکہ بیل آؤٹ پیکج نہ ملے۔ یہ سیاسی اختلاف میں ریاست کو ناکام کرنے پر تلے رہے۔ اب ایک بار پھر وہی ریت دہرادی ہے۔ امریکی مستقل رہائشی اپنی جماعت کے ترجمان سے آئی ایم ایف کو ایک اور خط روانہ کردیا ہے۔ ہم کوئی غلام ہیں اور ایبسلیوٹلی ناٹ کے جذباتی نعرے دینے والے سیاسی رہنماء اور انکی جماعت یہاں عوام کے جذبات بھڑکا کر ان میں ریاست اور اداروں کیخلاف نفرت بھڑکاتے ہیں تو دوسری جانب جن قوتوں کو آنکھیں دکھانے کا ڈرامہ رچاتے ہیں انہیں عالمی قوتوں، امریکہ کے سفیر سے اپنے لیڈروں کے ذریعے رابطے رکھتے ہیں۔ اسی ملک میں ان لابنگ فرمز کی خدمات لیتے ہیں جو ریاست پاکستان کیخلاف نفرت پھیلانے کے کام کے حوالے سے مشہور و معروف ہیں۔ جنکے پینلز پر ایسے امریکن ریسرچر اور اراکین کانگریس ہیں جو پاکستان مخالف تصور کئے جاتے ہیں اور اسی امریکہ کے زیر سایہ آئی ایم ایف سے اب انتخابات کے آڈٹ کا مطالبہ کررہے ہیں ۔آئی ایم ایف کو بتا رہے ہیں ریاست ناکام ہوچکی ہے، انہیں انصاف نہیں ملے گا۔ اب آپ مداخلت کریں ۔بانی پی ٹی آئی اور انکی جماعت کو عدم اعتماد کے بعد سے انتخابات تک کئی مواقع میسر آئے جہاں وہ سیاسی غلطیوں کا مداوا کرکے ریاست اور سیاست کے نظام میں واپس لوٹ سکتے تھے تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ سیاسی رہنماء اور ان کے لیڈر ایک بات پر بضد ہیں کہ ریاست کو ناکام قرار دیکر اپنی فتح کا جھنڈا گاڑنا ہے جس میں انہیں نہ پہلے کامیابی ملی نہ اب ملے گی کیونکہ ریاست ناکام نہیں ،آپکی سیاست ناکام ہے۔