ن لیگ کے سینٹر عرفان صدیقی صاحب نے اگلے روز سینٹ کے فلور پراظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا ،’ نہیں معلوم نگران حکومتوں میں شامل افراد کہاں سے آتے ہیں اور پھر کہا ں چلے جاتے ہیں‘۔جہاں تک سینٹر صاحب کے سوال کے پہلے حصے یعنی’ نگرانوں کے آنے‘ کا سوال ہے تواس باب میں ہم تو یہی جانتے ہیں کہ ان کا انتخاب آئین کے مطابق متعلقہ قائدین ایوان و حزبِ اختلاف خاصی چھان پھٹک کے بعدکرتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد جتنی نگران حکومتیں وجود میں آئیں، با لخصوص اب کی بار جو نگران حکومتیں قائم ہوئیں،ہم جانتے ہیں کہ اُن کے ارکان کا انتخاب توسینیٹر صاحب کی جماعت کی کامل آشیر بادسے ہوا تھا۔ نگران حکومتوں سے متعلق سینٹر صاحب کے استفسار کا دوسراپہلو نگرانوں کے ’خاموشی سے کہیں چلے جانے‘ سے متعلق ہے۔ نگران حکومتوں کے باب میں آئین کی منشاء کو سمجھا جائے تو بظاہر ہونا تو ایسے ہی چاہیئے ۔ نگران حکومتوں کا قیام ایک خاص آئینی مدت اور محدودمینڈیٹ کے ساتھ عمل میں لایا جا تا ہے ، نا کہ شہرت پانے کے لئے۔سب جانتے ہیں کہ ان حکومتوںکا بنیادی فریضہ عام انتخابات کا آزادانہ اور منصفانہ انعقادہے کہ جس کے لئے وہ خود کو روز مرہ فرائض کی انجام دہی تک محدود رکھتی ہیں۔ ایک غیر متنازعہ اور کامیاب نگران حکومت کا خاصہ ہی یہی ہے کہ آئینی مدت کے اندرانتخابات کے انعقاد کے بعداس کے ارکان جہاں سے آئے تھے، خاموشی کے ساتھ وہیں لوٹ جائیں۔سال 2024ء کے عام انتخابات منعقد کروانے والی نگران حکومتیں کیا اس کسوٹی پر پورا اُترتی ہیں؟ کیا ان نگران حکومتوں کے کلیدی ارکان سمیت ہم اپنے چیف الیکشن کمشنر صاحب کے ناموںکو فراموش کر سکتے ہیں ؟ کیا کسی کو یاد ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے وقت نگران وزیرِ اعظم ، وزراء اعلیٰ اور چیف الیکشن کمشنرآف پاکستان کون تھے؟وہ صوبائی نگران حکومتیں جو تین کی بجائے چودہ ماہ قائم رہیں، جس مرکزی نگران حکومت کو قومی انتخابات کے انعقاد میں سات ماہ لگ گئے ہوں، ان نگران حکومتوں کے دور میں قوم جس اعصاب شکن دَور سے گزری ہے کیااس کے بعدبھی ہم پوچھ سکتے ہیں ،’نا جانے یہ کدھر سے آئے اور کدھر چلے گئے ‘؟ زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگست 2023ء کے بعد قائم ہونے والی نگران حکومتیں اپریل 2022ء میں قائم ہونے والی پی ڈی ایم حکومت کا ہی تسلسل تھیں۔یہی بات موجودہ بندوست کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ مارچ 2024ء تک وہ درجنوں اقدامات اور دور رس فیصلے جو نگران حکومتوں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر کئے ان کے اثرات ہم عشروں تک محسوس کرتے رہیں گے۔ گزرے مہینوں پر ایک نظر دوڑائیں تو یہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں، نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کا گٹھ جوڑ ہی تھا کہ ہر حیلے بہانے کو بروئے کار لاتے ہوئے انتخابات کے بر وقت انعقاد کی راہ میں ہرممکن رکاوٹ ڈالی گئی۔ سال 2022ء میں ا حتجاجی شہریوں کے خلاف جو پُرتشددکارروائیاںمتعارف کروائی گئیں، نگران حکومتوں کے دَورمیں ہمیں ہر گزرتے دن اُن میں شدت کے ساتھ ساتھ آئے روز ایک نئی جہت دیکھنے کو ملی۔ 9 مئی کا سیاہ دن نگران حکومتوں کے پُر آشوب دور کا نقطئہ عروج تھا۔ نفرت، انتشار، بے چینی اور اس کے مقابل جبر کے امتزاج کی بے رحم لہر اٹھی تو بے شمار قدیم و مسلمہ اقدار اور روایات کو اپنے ساتھ بہا لے گئی۔ریاست اپنی پوری قوت کے ساتھ کارفرما ہو گئی۔گہیوں کے ساتھ گھن بھی پسنے لگا۔انتخابات کا انعقاد پسِ پردہ چلا گیا۔ آئین کی عملداری ، جمہوری اور انسانی حقوق کی پاسداری سمیت فرائض کی انجام دہی کے ابواب میں نگران حکومتوں کی کارکردگی پر تبصرہ اگر مطلوب ہو تو طاقتورمغربی لابی کے ترجمان انگریزی اخبارکانگران حکومتوں کے خاتمے پر 6مارچ کو لکھا گیا اداریہ دیکھا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا میں اگرچہ اب بھی کچھ دم خم باقی ہے۔اُردواخبارات اور ٹی وی چینلزیقیناوہ سب کچھ لکھنے اور کہنے سے گھبراتے ہیں۔ نگران حکومتیں اورالیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابات پر اسی وقت راضی ہوئے جب انصاف کے سیکٹرمیں مطلوب تبدیلیاںرونما ہوگئیں۔دوسری طرف عالمی اسٹیبلشمنٹ اوراس کے زیرِنگیں مالیاتی اداروں کی طرف سے بھی دبائو بڑھنے لگا۔پھر ایک روز ہم نے دیکھاکہ چیف الیکشن کمشنر صاحب اچانک’ سپریم کورٹ کی ہدایت‘ پر صدرِ مملکت کے پاس انتخابات کی تاریخ طے کرنے پہنچ گئے۔ یہ وہی صدر صاحب تھے کہ جن کے ساتھ وہ ماضی قریب میں ملاقات تک سے نہایت درشتگی کے ساتھ انکار کر چکے تھے۔ سپریم کورٹ بھی وہی تھی کہ جسے اس سے پہلے اس کے احکامات کی مسلسل حکم عدولی کے ذریعے بے توقیر کیا جا چکا تھا۔اب یہی سب فخریہ کہتے ہیں کہ انتخابات کو مقررہ تاریخ سے ایک دن بھی اِدھر اُدھر نہیں ہونے دیاگیا۔ 8فروری 2024ء کے عام انتخابات کو کئی حوالوں سے بھولنا کسی کے بس کی بات نہیں۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ معاملہ اب ایک فرد یا کسی جماعت کا نہیں، قومی طرزِ فکرمیں برپا ہونے والی جوہری تبدیلی کا ہے۔ ان انتخابات سے پہلے مہینوں میںکیا کچھ ہوا ، انتخابات کی رات اور اگلی صبح اوراُس کے بعدسے آج تک جوکچھ ہو رہا ہے، وہ سب بھی ہمارے سامنے کی بات ہے۔8فروری کو کروڑوں پاکستانیوں نے گھنٹوں قطار میں کھڑے ہو کر اپنا آئینی و جمہوری حق استعمال کیا۔ اس عوامی حقِ رائے دہی کوبظاہرجس بے رحمی کے ساتھ مسخ کیا گیاہے،اس کی گواہی خود الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ چیخ چیخ کر دے رہی ہے۔ کیا تاریخ اس باب میں ذمہ دار وںکو فراموش کرسکتی ہے؟فوجی بغاوت اگر سنگین جرم ہے توگھنٹوں کی ریاضت سے قطرہ قطرہ ڈالے گئے کروڑوں ووٹوں کی یوں بیک جنبشِ قلم تضحیک کئے جاناکیا اس سے کوئی کمتر آئین شکنی ہے؟جنرل باجوہ صاحب نے مدتِ ملازمت کی تکمیل پر تاریخ میں گُم ہونے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ہو سکتا ہے چند نگرانوں سمیت ہمارے الیکشن کمیشن والے بھی آنے والے دنوں، مہینوں میں ایسا ہی چاہیں۔ اندازہ مگر یہی ہے کہ ملکی تاریخ کے اوراق سے اب کچھ ناموں کو کھرچنا شایدکسی کے لئے بھی ممکن نہ ہو۔ نگران حکومتیں کہنے تو ختم ہو گئی ہیں، لیکن ان کی legacy کا تسلسل جاری و ساری ہے۔قوم کو ’روتھ لیس‘ روّیوں سے دھمکایا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن پہلے کی طرح پوری آب و تاب کے ساتھ اپنے فیصلے صادر کر رہا ہے۔انصاف کے مندر میںنئے مُردے گاڑے اورعشروں پرانے کھودے جا رہے ہیں۔ نگرانوں میں سے جہاںچند افراد کو چُن چُن کرنئے حکومتی بندوبست میں اعلیٰ عہدوں سے نوازا جا رہا ہے توہمارا حسن ظن یہی کہتا ہے کہ یقینا اس کے پیچھے اقرباء پروری نہیں،اِن صاحبان کا ’حسنِ کارکردگی‘ ہی کارفرما ہے۔ا ب اِن صاحبان کے بارے میں یہ پوچھنا کہ’ نا جانے وہ کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے‘،کیا کوئی درست بات ہے؟