ایک زمانے کے لیے جناب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی کہانی میں سبق ہے، گہرا ،گہربار، تابناک اور تابندہ سبق، ہر اس شخص کے لئے شاندار سبق کہ حکمرانی جسے نصیب ہو جائے اوراپنے دورِ اقتدار میں جو کچھ نیا ، کچھ اچھوتا او رکچھ سنہرا وہ کر دکھانا چاہتا ہو، خواب دیکھنے والے او ر سماج بدل دینے والے ہر حکمران کے لیے جنابِ عمر بن عبدالعزیز کے مختصرترین دورِ حکومت میں،کامرانی کے کئی نقش قدم اور سنگ ہائے میل ہیں ۔ وہ تمام کہانی پھر کبھی ، ایک بات البتہ آج ہی۔ اموی خلیفہ ہشام کے دربارمیںایک سائل حاضر ہوا۔ خلیفہ ہشام نے عمربن عبدالعزیز کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔ یہ عمر بن عبدالعزیز کے بعد کے خلیفہ ہشام کا دور تھا اور ایک شخص اپنی درخواست کے ساتھ خلیفہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ سادہ سی اس کی درخواست تھی۔کہنے لگا ،میرے باپ کو آپ کے والد عبدالملک بن مروان نے ایک جاگیر عطا کی تھی۔ بدستور وہ ہمارے خاندان کے پا س رہی ۔ ان کا دور گزرا تو ولید اور سلیمان کے ادوار میںبھی وہ جاگیر ہمارے ہی تصرف میں رہی ۔جنابِ عمر بن عبدالعزیزؒ کا دور آیا تویہ جاگیر انھوں نے ہم سے واپس لے کر بیت المال میں داخل فرما دی۔ درخواست یہ ہے کہ جنابِ عمر جا چکے ، آپ اپنے باپ کی عطا کردہ وہ جاگیر مجھے دوبارہ عنایت فرما دیجئے۔ غور سے خلیفہ ہشام نے سائل کی التماس سنی۔ اس کے لفظوں پر خلیفہ کوبے اختیار چونک جانا پڑا۔ فرمایا، ذرا اپنا آخری جملہ پھر سے دہراؤ۔ سائل کہنے لگا، جنابِ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا دور آیا تویہ جاگیر انھوں نے ہم سے واپس لے کر بیت المال میں داخل فرما دی ۔ حیرت سے ہشام نے اس کی کہی بات دہرائی ، جناب عمر بن عبدالعزیز کے نام کے ساتھ وہ کہہ رہا ، رحمہ اللہ ! رحمہ اللہ ، یعنی خدا ان پر رحمت کی برکھا فرمائے ، خدا ان پر مغفرت کی چادر تان دے ۔ خلیفہ نے فرمایا ، وہ شخص کہ جاگیر جس نے تمھیں عطا کی اور وہ اشخاص کہ جاگیر کو جنھوں نے تمھارے پاس باقی اور برقرار رکھا۔ ان سب کے لیے تمھارے پاس رحمت کی کوئی دعا اور کوئی لفظ نہیں۔ البتہ وہ شخص کہ جاگیر جس نے تم سے چھین لی ، مغفرت کی اس کیلئے پھر بھی دعا۔ سائل سے انھوں نے فرمایا ، فیصلہ ہمارا وہ ہے ، جو جنابِ عمر کا ہے۔ وہ نہیں جو ہمارے باپ اور بھائیوں کا ہے۔ جناب ابوبکر صدیق ؓ کی پہلی تقریر کا ایک جملہ یہ تھا کہ تمھارا کمزور میرے نزدیک زیادہ طاقتور ہے ،جب تک کہ میں کمزور کا حق اس طاقتور سے واپس نہ لے لوں۔تاریخ اور زمانہ انھی کو یاد کرتاہے ، جو وقتی مفاد کے بجائے جو دائمی اصول کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جو قوم کو نہ لوٹتے ہیں اور نہ لوٹنے والوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ دینے والوں کو لوگ بھول جاتے ہیں البتہ باکردار چھیننے والوں کو وہ سلام کرتے ہیں۔ٹائیگر ہلز پر ڈٹے پاکستانی سپاہی شیرخاں کی داستانِ شجاعت بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔جنگ کے ہنگام پہاڑی پرجو اکیلا رہ گیا، پانی اور خوراک اور پھر اسلحہ بھی بالتدریج جس کا تمام ہو گیا۔تنِ تنہا اور بے تیغ وہ مگر ڈٹا رہا، لڑتا رہا۔ چار سو سے زائد اس پر فضائی حملے ہوئے مگر اس سے زیادہ تعداد میں اپنے مخالفین کو مگر اس نے خاک چٹوا دی ۔ میت جب اس شہید کی دشمن نے لوٹائی تو ساتھ اس کی بہادری کو خراجِ تحسین پیش کرتا سرکاری خط بھی بھیجا۔ کس قدر حیرتناک بات ہے کہ پاکستان آج بھی قائد کو یاد کرتاہے۔ دیانتدار، باکردار اور جو بااصول آدمی تھے۔کبھی جنھوں نے کسی کو رعایت دی اور نہ کسی کی سفار ش کی۔ نہ خود رعایت مانگی نہ دوسروں کیلئے بے جا مصالحت کی راہیں کشادہ کیں۔ جو دو ٹوک تھے اور واشگاف۔ جھوٹ ہے کہ بے جا جھکنے اور نوازنے والا پھل پاتاہے۔ نہیں بلکہ تاریخ کی راکھ میں دفن ہو جاتاہے۔عمران خان تاریخ کے اب امتحان میں ہے۔ وہ وقت آگیا کہ بے چینی سے جس کا انتظار تھا۔ایک عرصے سے ایک خاص طرز کی سیاست پاکستان میں جاری تھی۔ عمران خان نے اسے بدلنے کا نعرہ لگایا۔ کچھ وقت لگا اور بالآخر آج عمران خان گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہونے والے ہیں۔ خان پر یہ بڑے کڑے امتحان کا وقت ہوگا۔ جواب مانگنا آسان اور جواب دینا مشکل ہوتاہے۔ اب خان کو جواب مانگنا نہیں ، جواب دیناہے۔ لوگ بھی صحرا کی پیاس رکھتے تھے ،اور ادھر خود عمران نے انھیں آرزؤں کے آسمان پر لابٹھایاہے۔ اب عمل کا وقت ہے۔ کراچی میں تحریکِ انصاف کے نو منتخب عمران شاہ نے راہ گیر کو جو تھپڑ مارے، اس پر پارٹی کی طرف سے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ۔ یہ اچھی بات ہے ، ایسی مگر بہت سی اچھی مثالیں قائم کرنا ہوں گی۔ سپیکر کے انتخاب کے ہنگام ن لیگ کی نا واجب ہنگامہ آرائی پر خندہ پیشانی دکھانا بھی عمدہ عمل ۔ تنقید اب بہت ہوگی ، باتیں بھی یاد دلائی جائیں گی۔ روڑے اٹکائے جائیں گے۔ حوصلہ مگر کرنا ہوگا۔حوصلہ ہی کافی نہیں ہوگا، تنقید کی اسی برستی بارش میں حوصلے کی چھتری تان کے وہ سارا کام بھی کرنا ہوگا ، وعدے جن کے بڑی آسانی سے کر لیے گئے۔ عمر بن عبدالعزیز کی سیرت کی سیرت میں خان کے لیے سبق ہے۔ محض اڑھائی سال میں ایک زمانے کی خرابیوں کی انھوں نے اصلاح کر دکھائی ۔ تاریخ آج بھی ان پر فخر کرتی ہے۔تاریخ ایسوں ہی کو یاد رکھتی ہے ۔تاریخ ایسوں ہی پر مان کرتی ہے ۔ان سے کہیں زیادہ وقت حالانکہ بے شمار خلفاء اور حکمرانوں کو ملا۔وقت گنوا دینے والے سب مگر آج تاریخ کے کوڑے دان کا رزق ہیں، جبکہ عمر بن عبدالعزیزایک سنہرا نام ۔