مذہبی طبقے سمیت پاکستانیوں کی ایک معقول تعداد امریکہ کی مسلم مخالف عالمی پالیسیوںکی ہمیشہ سے ناقد رہی ہے۔ امریکی بھی پاکستان پر بھروسہ کرنے سے کتراتے اور خطے میں اس کے عمومی طرزِ عمل پر شاکی رہے ہیں ۔امریکہ سے دوستی ہماری یکطرفہ کاوشوں کا نتیجہ تھی۔ پہلی فوجی آمریت کے دَور میں مگر پاکستان امریکی امداد لینے والا ایک بڑا اتحادی بن چکاتھا۔تاہم سال 1965 ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران جہاں ہمیں امریکی امداد کی بندش نہیں بھولتی تو وہیں سقوطِ ڈھاکہ سے پہلے امریکی بحری بیڑے کے نہ پہنچنے کا ہمارادکھ بھی دائمی ہے۔یہ نہیں کہ امریکہ جمہوریت کا حامی نہیں ۔بس ہر بار کچھ مجبوریاں آڑے آتی رہی ہیں۔پاکستان کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو امریکیوں نے ان کا استقبال سرد مہری سے کیا تھا۔تاہم بعدازاں وہی جابر فوجی حکمران امریکی آنکھ کا تارا بن گیا۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی طرزِ عمل میںایک بار پھر جو بیگانگی عود کر آئی تھی، راتوں رات اس وقت ’تزویراتی دوستی‘ میںبدل گئی جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چوتھے فوجی آمر نے امریکہ کا اتحادی بننا قبول کر لیا۔اتحادی ہونے کے باوجود مگراس بار دونوں ملکوںکے مابین اعتمادکا فقدان ہی رہا۔بے مثال جانی و مالی قربانیوں کے باوجود امریکہ پاکستان اور اس کے اداروں پر دوغلے پن کا الزام دھرتارہا۔ آئے روز ڈو مور کا مطالبہ کرتا رہا۔ مشرف اقتدار سے رخصت ہوئے تو سویلین حکومت قائم ہوگئی۔تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت خطے میں ہمسائیوں کے ساتھ دیگرمعاملات پر اسٹیبلشمنٹ کا اثر ورسوخ اپنی جگہ قائم رہا۔ یہی وہ دور تھا کہ امریکہ نے پاکستان کے باب میں اپنے پالیسی آپشنز کا از سرِ نو جائزہ لیتے ہوئے ’ملٹری فرسٹ اپروچ‘ کی بجائے سویلین حکمرانوں کے سا تھ ’جامع تعاون ‘(Comprehensive Co-op)کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اسی تناظر میںکیری لوگر بل کی شکل میں بھاری امداد کا اعلان کیا گیا۔نئی اپروچ کو مزاحمت درپیش ہوئی تو بھی سیاسی جماعتوں ، اسٹیبلشمنٹ مخالف عناصر اور مغربی طرزِ فکر رکھنے والی لبرل لابیوں سے روابط بڑھانے کا کام جاری رکھا گیا۔ کروڑوں ڈالرز کے امدادی پروگرام شروع کئے گئے تو لاتعداد این جی اوز پیدا ہونے لگیں۔ راتوں رات سول سوسائٹی معرض وجود میں آگئی۔ الیکٹرانک میڈیا کا دور شروع ہوا تو میڈیا سٹارزکھمبیوں کی طرح اُگنے لگے۔ یہی وہ دور تھا جب بھارت میں فیک نیوز نیٹ ورک پاکستان اور چین کے خلاف جمہوری اور انسانی حقوق کی آڑ میں زہریلا پراپیگنڈا کرنے میں مصروف تھا۔ اسی دَور میں عالمی تنہائی ختم کرنے اور ہمسائیوں سے تعلقات درست کئے جانے کی آڑ میںایک سیاسی جماعت نے سلامتی کے اداروں کو دبائو میں لانے کی کھلی مہم کا آغاز کیا۔ ڈان لیکس اور عالمی عدالتِ انصاف میں دہرائے جانے والے ریاست مخالف بیانات اسی دور کی یادگاریں ہیں۔ دبائو میں گھری اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ تیسری سیاسی قوت پر تکیہ کرتی ۔ سال 2018 ء میں ایک نئی مگر مقبول جماعت کو اپنا کاندھا فراہم کرتے ہوئے ایوانِ اقتدار تک پہنچایا گیا۔ حکومت کے قائم ہوتے ہی وہ تمام عناصر جو اب تک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سر گرمِ عمل تھے، فوراََ سے پیشتر نئی حکومت کے درپے ہو گئے۔ انتخابات کی شفافیت پر شدو مد کے ساتھ سوالات اٹھائے جانے لگے۔حکومت کو ’ہائبرڈ‘ اور منتخب وزیرِ اعظم کو ’ کٹھ پتلی ‘قرار دے دیا گیا۔چڑچڑے مغرب زدہ لبرلز ریاستِ مدینہ کی بات کرنے پروزیرِاعظم کو متروک مذہبی نظریات کا حامل شخص قرار دینے لگے۔ انگریزی اخبار عورتوں کے باب میں اس کی ’بے حسی‘ کا واویلہ کرتا۔ مغربی دارالحکومتوں میں سرگرم نیٹ ورک کے کارندوں نے پاکستان میں سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیوں سمیت میڈیاپر قدغنوں کو لے کر ایک منظم مہم برپاکئے رکھی۔ پاکستان کی قبائلی پٹی میں افغان کٹھ پتلی حکومت کے طرفدار عناصر کوحقوق کے نام پر اسٹیبلشمنٹ مخالف تنظیم میں پرویا گیا۔ مودی کا بھارت، کٹھ پتلی افغان حکمران، دیسی لبرلز اور چند پرانے سیاسی خاندان عالمی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے یک زبان ہو کر حکومت اور اس کے ’سرپرستوں‘ (ڈیپ سٹیٹ) کوخطے میں انتہا پسندی کے خاتمے، ہمسائیوں بالخصوص بھارت کے ساتھ امن اور سویلین بالا دستی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے رہے۔ عمومی طور پرپاکستان کے باب میں امریکی پالیسی تین معاملات کے گرد گھومتی ہے،جوہری ہتھیار، دہشتگردی اور خطے کے جیو پولیٹیکل معاملات۔ دیکھا جائے تو پہلے جز سے متعلق عمران دور میں کوئی نئی شکایت سامنے نہیں آئی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی میں بھی کوئی جو ہری تبدیلی دیکھنے کو نہ ملی۔پاکستان مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا پُرامن حل ڈھونڈے جانے کی طے شدہ پالیسی پر کا ربند رہا۔ اسی پالیسی کا اعادہ صدر ٹرمپ نے وزیرِ اعظم عمران خان اور جنرل باجوہ کے مشترکہ دورہ امریکہ کے دوران سرِ عام کیا۔تاہم کہا جا سکتا ہے کہ جیو پولیٹیکل معاملات میں عمران حکومت نے امریکی پالیسی سے کامل مطابقت اختیا ر نہیں کی۔یوکرین پرحملے کے عین روزروس کا دورہ ،افغانستان سے ذلت آمیز انخلاء کے رِستے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ثابت ہوا۔اب جبکہ ہم جانتے ہیں کہ دوسری طرف کچھ ایسے عناصر کہ جو خطے میںامریکی منشاء کے مطابق خدمات انجام دینے کے لئے تڑپ رہے تھے، حکومت کو گرانے میں ہی اپنی ذاتی بقاء بھی دیکھ رہے تھے۔ زیرِ زمین ملاقا توں میں کہ جن کا اعتراف اب سابق گورنر سندھ بھی کر رہے ہیں، شطرنج کی بساط پر کچھ چالیں تو سوچی گئی ہوں گی ۔ پاکستانی عوام نے 8فروری کے دن مگر تما م چالوں کے سامنے ایک ایسی چال چلی ہے کہ بظاہرپہلے سے کھینچی گئی لکیروں کے مطابق ایک حکومتی ڈھانچہ کھڑا تو کر دیا گیا ہے، بنیادیں مگر اُس کی کھوکھلی اور کسی ٹھوس آئینی اور اخلاقی جواز سے محروم رہ گئیں۔ پاکستان میں جمہوریت پسندوں کو روزِ اول سے گلہ رہا ہے اگر حکمرانوں کو امریکی پشت پناہی حاصل نہ ہوتی تو آج ہمارے ہاں بھی جمہوریت توانا اور مستحکم بنیادوں پر استوارہوتی۔یہ دانشور توہم نہیں جانتے اب کس سوچ میں غرق ہیں،ملک کے اندر اور باہر کروڑوں پاکستانیوں کے اندر یہ تاثر عام ہے کہ ایک منتخب حکومت کو گرائے جانا، مہینوں پر محیط آئین و قانون سے رو گردانی، جمہوریت کی نفی، انسانی حقوق کی پامالی اور بالآخر انتخابی نتائج میں لرزا دینے والا ردّ وبدل، امریکی تائید کے بغیرہر گز ممکن نہ ہوتے۔ کہا جا تا ہے کہ عشروںپر محیط عجب تعلقات کے بعدآج واشنگٹن میں کسی’پاکستان دوست‘ کو ڈھونڈناآسان کام نہیں ۔وہیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آج محض کسی مخصوص طرزِ فکر کا حامل طبقہ نہیں ،بلکہ کروڑوں پاکستانی جس شدت کے ساتھ امریکہ سے ناراض ہیں ،ڈھونڈے سے اُس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی