اہل وطن کو مبارک ہو! پاکستان ترقی کی شاہراہ پر چل نکلا ہے۔ پاکستان کی ترقی نے ساری دنیا کے علاوہ خود پاکستانیوں کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کے وہ ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں جو شاید پاکستان خود ہی توڑ سکتا ہے۔ کسی پنجابی فلم کا ڈائیلاک ہے مو لے نوں مولا ناں مارے تے مولا نیں مردا!! یہی حال آجکل پاکستان کا ہے۔لوگ چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے الیکشن ہونگے یا نہیں۔ اگر ہونگے تو کب ہونگے۔ پارلیمنٹ کا نیا قانون چیف جسٹس کے اختیارات کو کس حد تک کم کر دے گا۔کیا اسمبلی مستقبل میں کوئی ایسا قانوں بھی بنا سکتی ہے کہ فوج کے فیصلے چیف آف آرمی سٹاف کے بجائے تو تین سینیر جنرل ملکر کریں۔ وزیر اعظم کے بجائے کوئی وزرا کی تین رکنی کمیٹی ملک کا نظام چلائے۔ کچھ لوگ اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی کے جو ٹکٹ دیئے ہیں ان میں کس حد تک میرٹ کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے جو امیدوار پاکستان تحریک انصاف میں تھے ان میں سے کسی کو ٹکٹ کیوں نہیں دیا گیا۔ فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ کیوں نہیں ملا۔ شہباز گل اتنی مار کھانے کے باوجود بھی کیوں محروم رہے۔کیا پرویز الہی کو پنجاب میں واک اوور دے دیا گیا ہے اور مراد راس کو ٹکٹ نہ ملنے پر کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔ بارہ سیٹوں پر ابھی فیصلہ کیوں نہیں ہوا۔ مریم نواز لاہور کے کس حلقے سے پنجاب اسمبلی کا لیکشن لڑیں گی۔ اور ان کا مقابلہ یاسمیں راشد سے کس حد تک جا سکتا ہے۔ بہت سی بحثیں ہیں جو جاری ہیں۔ ان بحثوں کا ایک عام آدمی کی زندگی پر کوئی اثر نہیں ہے۔ ایک عام آدمی تو اس ملکی ترقی سے متاثر ہے جو ہم نے اس ایک سال میں کی ہے۔ کچھ ملک دس سال میں اپنی ترقی کو ڈبل کرتے ہیں اگر وہ آٹھ دس فی صد سالانہ کے حساب سے ترقی کریں۔ کچھ ملک پانچ سال میں اپنے ڈبل ترقی کا حدف پورا کرتے ہیں جو 16 فی صد سالانہ سے زائد ترقی کرتے ہیں۔ مگر پاکستان تو کمال ہی کر دیا ہے صرف ایک سال میں ڈبل سے زائد ترقی کر لی ہے۔ مہنگائی میں پاکستان کی ترقی پچاس فی صد سالانہ کے قریب ہے۔ یہ اعداد شمار 47 فی صد سے تجاوز کر چکے ہیں۔ کچھ شعبوں میں تو ہم سو فی صد سے بھی آگے جا چکے ہیں۔ اگر ہماری ترقی کی یہی شرح رہی تو تین سال بعد ایک روٹی سو روپے تک جا سکتی ہے۔ ایک مزدور ایک وقت کی روٹی پانچ سو میں کھائے گا اور اسکی دیہاڑی کوئی بارہ سو کے لگ بھگ ہو گی۔ امید ہے کہ لیبر کا مسئلہ حل ہو جائے گا ، مزدور صرف یہ مطالبہ کر ے گا کہ اسکو دو وقت کی روٹی اور چائے مل جائے وہ سارا دن کام کرنے پے راضی ہے۔ جناب ہم کسی الف لیلوی داستان کو بیان نہیں کر رہے۔ اس وقت میرے سامنے ادارہ شماریات پاکستان کے اعداد و شمار پڑے ہیں ۔ جن کے مطابق ایک سال میں آٹے کی قیمت میں 143 فی صد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ لپٹن چائے 104 فی صد، گیس کے بل میں 108 فی صد ڈیزل 102 فی صد کے اضا فے کے ساتھ موجود ہے۔ آلو جو غریبوں کی سبزی سمجھی جا تی ہے وہ بھی 98 فی صد کیلا 97 فی صد اور چاول کی قیمت میں 85 فی صد سے زائد اضافہ ہو چکا ہے۔ اور تو اور ماش کی دال جو ہوٹل پر مزدور سب سے زیادہ کھاتے ہیں وہ بھی 58 فی صد سالانہ کی ترقی پر ہے۔ مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ عارف علوی کے بعد کون پاکستان کا صدر بنتا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل کے بعد کس کی باری ہے۔ موجودہ حکومتی سیٹ اپ کتنے عرصے تک چلے گا۔ عمران خان پاکستان کا وزیر اعظم بنتا ہے یا نہیں۔ نواز شریف اور جہانگیر ترین کی سیاسی ناہلی کب ختم ہو گی۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر پرویز لہی، بزدار، مریم نواز اور حمزہ شہباز میں سے کون بیٹھے گا۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک سال تک ترقی کی یہی رفتار رہی تو مزدور کو کام ملے گا۔ کیا ہمارا ملک اس قابل ہو گا کہ وہ لاکھوں کروڑوں مزدور کو کام دے سکے اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کام مل بھی گیا توکیا یہ کام اس کو تین وقت کی روٹی دے سکے گا۔ اگر ہم اسی رفتار سے ترقی کرتے رہے تو دو سال بعد ایک کلو آٹا چھ سو روپے کا ہوگا۔ میرے قارئین اس بات پے شاید حیران ہوں کہ میں کہیں بھی مزدور اور اسکی فیملی کا ذکر نہیں کیا۔ مزدور کے بچوں کا ذکر نہیں کیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بچے تو جو پہلے پیدا ہو چکے ہیں انکے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اس دور میں ایک آدمی صرف اپنا پیٹ بھر سکے وہ غنیمت ہے۔ بجلی، پٹرول، گیس ، پھل یہ تو صاحب حیثیت لوگوں کے چونچلے ہیں۔ سیلاب پہاڑوں سے نہیں چلا اس کا ریلا آبادیوں میں داخل ہو چکا ہے۔ بھوک اور غربت جب ایک حد سے بڑھ جاتی ہے وہاں پھر روس اور فرانس کا ماحول بنتا ہے۔ اس وقت پاکستان جس تیزی سے ترقی کر رہا ہے اسکو ریکارڈ کرنے کے لئے کچھ عرصے بعد شاید ہمارے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ تیسری عالمگیر جنگ کن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی مجھے اس کا علم نہیں البتہ اسکے بعد جو جنگیں ہونگی وہ ڈنڈے اور پتھروں سے لڑیں جائیں گی۔پاکستان کی جو رفتا ر ہے اگر خدا نخواستہ یہ جاری رہی تو کچھ عرصے کے بعد آپ کو یہاں ناں کوئی برانڈ نظر آئے گا اور ناں برانڈڈ لیڈر۔ یہ کاریں ، یہ ہوٹل ، یہ پلازے سب ایک لمحے کی مسافت پے ہیں۔ بھوکے انسان کو فلسفہ کی ضرورت نہیں ہوتی اسکو صرف روٹی چاہئے۔ سخت سردی، غار اور بھیڑئے اور پھر جو کچھ ہوتا ہے وہ آپ تصور کر لیں۔