متحدہ عرب امارات میں پاکستانی جعلی کرنسی کا نیٹ ورک بے نقاب ہوا ہے جس کے تانے بانے بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے ملتے ہیں۔ یہ جعلی کرنسی نوٹ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کیلئے مختلف قسم کے سامان میں چھپا کر دبئی اور دیگر ریاستوں میں منتقل کردیئے جاتے ہیں۔ جہاں سے یہ کرنسی پاکستان میں سامان لے کر آنے اور جانے والے افراد کو سپلائی کردی جاتی ہے۔ اس ضمن میں دبئی سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں پاکستان میں اہم گرفتاریاں کی گئی ہیں جبکہ تحقیقات کا دائرہ اس پورے نیٹ ورک سے منسلک پاکستان اور دبئی میں موجود ملزمان تک وسیع کردیا گیا ہے۔ جس میں درجن بھر کھیپیوں کے علاوہ فوڈ، الیکٹرانک اور کاسمیٹکس کے سامان کے متعدد ڈیلرز اور سپلائرز بھی شامل ہیں۔ تحقیقاتی اداروں کی جانب سے اسلام آباد، لاہور اور پشاور کے ایئر پورٹوں سے خفیہ اطلاعات پر بیرون ملک سے آنے والے فوڈ آئٹمز کی کچھ ایسی کھیپیں پکڑی گئی ہیں۔ جن میں چھپائے گئے 5 ہزار روپے مالیت کے ہزاروں جعلی نوٹ برآمد ہوئے ہیں۔ سامان کی درآمد سے منسلک بعض افراد کو حراست میں لے کر تحقیقات کی گئیں۔یہ کرنسی نوٹ غیر ملکی خشک دودھ اور جوس کے پائوڈر کے ڈبوں میں مہارت کے ساتھ چھپا کر ملک میں لائے جا رہے تھے۔ اس ضمن میں چند ماہ قبل دبئی پولیس حکام کی جانب سے خفیہ اطلاعات ملنے پر دبئی میں ایک منی ایکسچینج مرکز سے جعلی غیر ملکی کرنسی کے عوض درہم وصول کرنے والے گروہ کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان ملزمان کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق گروہ نے 16000 جعلی یورو کے بدلے ایک کرنسی ایکسچینج سے 50 ہزار درہم وصول کیے تھے اور جعلی شناخت کے ذریعے رقم کا تبادلہ کرکے فراڈ کیا۔تفتیش میں معلوم ہوا کہ امارات میں ایک گروہ سوشل میڈیا کے ذریعے جعلی کرنسی کو اصلی کرنسی نوٹ ظاہر کرکے پھیلا رہا تھا۔ کرنسی تبدیل کرانے کیلئے 50 فیصد تک رعایت بھی دی جا رہی تھی۔ جبکہ سادہ لوح افراد ان کے جھانسے میں آرہے تھے۔ ایجنٹ بھی اس میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ ایف آئی اے نے جعلی کرنسی پھیلانے والے بڑے نیٹ ورک کا سراغ لگا لیا جنہوںنے ایک لاکھ کی جعلی کرنسی 30 ہزار میں فروخت کردی۔ ملزمان نے بھارت اور افغانستان میں جعلی نوٹو ں کی چھپائی کا انکشاف بھی کیا، کراچی میں جعلی کرنسی سمیت ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے دو ملزمان نے انکشاف کیا کہ وہ بین الصوبائی نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ ملزمان جعلی کرنسی پھیلانے کی کئی کامیاب وارداتیں کر چکے ہیں تاہم ایک بینک افسر کے ساتھ وار دات پر انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ملزمان نے جعلی نوٹ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ سے خریدے تھے جو کہ ایک لاکھ روپے کے نوٹ 30 ہزار روپے میں فروخت کرتا ہے ،اس گروپ کا ماسٹر مائنڈ کراچی آتا جاتا رہتا ہے۔ جس گروپ سے جعلی نوٹ خریدے گئے اس کا بھی سراغ لگا لیا گیا ہے ، اس گروپ نے لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں کے علاوہ پشاور ، کوئٹہ ،کراچی ،حیدر آباد اور دیگر علاقوں میں موجود ملزمان کو کروڑوں روپے کے جعلی نوٹ فروخت کئے اور تاحال یہ سلسلہ جا ری ہے۔ یہ کرنسی نوٹ اس قدر مہارت سے چھاپے گئے ہیں کہ انہیں عام شہری مشکل سے ہی پہچاننے میں کامیاب ہوتے ہیں جبکہ یہ کرنسی نوٹ پھیلانے والے ملزمان اکثر جعلی نوٹ دینے کیلئے رات کے وقت کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ شہریوں کو نوٹ پہچاننے میں مزید مشکل پیش آئے۔ حالیہ دنوں پاکستان میں جعلی نوٹوں کی گردش خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے ۔یہ صورت حال نہ صرف ملکی معیشت کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ عام افراد بھی اس مافیا کے جانسے میں آتے ہیں۔ پاکستان میں سرکولیٹ ہونے والے جعلی نوٹوں کی پہچان انتہائی مشکل ہے جو اصلی نوٹوں سے مماثلت رکھتے ہیں جسکی وجہ سے روزانہ عوام لاکھوں جعلی نوٹ وصول کرتے ہیں اور انہیں آگے منتقل کر دیتے ہیں ،۔ ملک کو افراط زر کا شکار کر نے کے لئے دیگردشمن ممالک کے ایجنٹ بھی جعلی کرنسی کا حربہ استعمال کرنے لگے ہیں تاکہ جعلی نوٹوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلا کر ملک کے اندر مہنگائی میں اضافہ کیا جائے اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا جا ئے۔گزشتہ 2 سال میں ملک بھر سے جعلی نوٹوں کے 20 ہزار کرنسی نوٹ پکڑے گئے ہیں۔سیکیورٹی اداروں نے مختلف بینکوں سے 35 ہزار جعلی کرنسی نوٹ جمع کرائے ان جعلی نوٹوں میں 60 سے 70 فیصد نوٹ 1 ہزار روپے کے ہیں۔ ملک دشمن عناصر جعلی پاکستانی کرنسی پھیلا رہے ہیں جس سے قومی معیشت کو نقصان ہو رہا ہے۔مرکزی بینک ایسے عناصر کے عزائم ناکام بنانے کیلئے مستعد ہے۔ دشمن ملک جعلی پاکستانی کرنسی بنا رہے ہیں جسے بالخصوص ملک میں دہشت گرد سرگرمیوں کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انتہائی اعلی معیار کے جعلی نوٹ پاکستان میں امن و امان خراب کرنے کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ جعلی نوٹوں کیلئے وہی کاغذ اور سیاہی استعمال ہو رہی ہے لیکن ان کے سیریل نمبر مختلف ہیں اور صرف ایک ماہر آنکھ ہی انہیں پکڑ سکتی ہے۔ پاکستان کے کرنسی نوٹوں میں موجود سیکورٹی فیچرز کی مدد سے جعلی نوٹ پکڑے جا سکتے ہیں۔ان فیچرز کو جعلی نوٹوں میں استعمال کرنا انتہائی مشکل ہے۔ سٹیٹ بینک کرنسی نوٹوں میں ہولوگرام اور دوسرے سیکورٹی فیچرز متعارف کرانے پر کام کر رہا ہے۔یہ ایک مہنگا منصوبہ ہے اور ابھی طے ہونا باقی ہے کہ پہلے کس نوٹ پر اسے شامل کیا جائے۔ پانچ ہزار کے نوٹ پر ہولوگرام ہونا ضروری ہے ، جس کے بعد اسے 1000 کے نوٹ پر لانا چاہیے۔