واشنگٹن ( ندیم منظور سلہری) پاکستان نے بھارت اور امریکہ کے لئے اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کر دیا جسکا واضح اشارہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر دیکھنے کو ملا۔ ماہرین نے کہا ہے کہ عمران خان کے اس ایکشن سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان نے ٹرمپ انتظامیہ کو پیغام دیا ہے کہ اسکے بھارت کی جانب ضرورت سے زیادہ جھکاؤ کو وہ اپنی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ تصور کر رہا ہے ، اسی وجہ سے عمران خان نے اس سربراہی کانفرنس کے موقع پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ دوستانہ ماحول میں گفتگو کر کے انہیں کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو پاکستان روس اور چین مل کر مستقبل میں اس خطے میں ایک بڑا اتحاد قائم کر سکتے ہیں، عمران خان نے روسی صدر کے ساتھ گپ شپ میں افغانستان ایشو پر بھی گفتگو کی۔جنوبی ایشیائی امور کی سینئر امریکی سفارتکار ایلس ویلز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن کے لئے پاکستان سے بات چیت ضروری ہے ، اگر پاکستان ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کر دے تو امریکہ اسکے بدلے 13 کروڑ ڈالر کی امداد دے سکتا ہے ، ہماری کوشش ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ایڈ کی بجائے ٹریڈ کی بناء پر استوار ہوں ۔ دوسری طرف ٹرمپ انتظامیہ کے کئی عہدیدار کہہ رہے ہیں کہ بھارت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ چین کا مقابلہ کر سکے ، پاکستان کے نیوکلئیر اثاثے اور اسکی فوج بھارت سے کئی گنا زیادہ طاقتور اور باصلاحیت ہے لہذا پاکستان کو کارنر کرنے سے معاملات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں ۔پروفیسر تاجیندر نیجر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے روسی صدر کو یہ آفر بھی کی ہے کہ آئندہ افغانستان میں پاکستان ، چین اور روس کے ساتھ مشاورت کے بعد ایسے گروپ کو آگے لائے گا جو امریکی نواز نہ ہو ،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آئندہ دنوں میں روسی صدر پیوٹن پاکستان کا سرکاری دورہ کریں۔