آبرومندانہ زباں و بیاںا و رطرز عمل حکمران حلقوں کا بھی نہیں لیکن حزب اختلاف کی جماعتیں جن کا اب پاکستان ڈٰیمو کریٹک موومنٹ میں اکٹھ ہے ،کے بعض اظہارات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔چنانچہ پی ڈی ایم 17 نومبر کو منظور کی گئی اپنے بارہ نکاتی میثاق پر قائم رہے۔عداوت میں ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں تو لا محالہ ان کی تحریک منتشر ہو جائے گی۔ جیسے مولانا فضل الرحمان کے بھائی سینیٹر مولانا عطاء الرحمان کے اشاروں اور کنایوں سے مترشح ہے کہ بھارت، افغانستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک کے اندر ہمارے پائوں کے نشانات جاتے ہیں۔ مولانا کا یہ اظہار کشمیر کے مؤقف پر کاری وار ہے۔ جس کے لیے ان کی اپنی جماعت کی سالوں جدوجہد رہی ہے۔ افغانستان کے اندر روسی فوجی حملے،سیاسی مداخلت، بھارت کی ہم رکابی ۔ پھر اصحاب شمال کی کفالت ،ان کی عسکری و سیاسی نشونما جس کے لیے بھارت کے ساتھ ایران بھی ، افرادی، عسکری سازو سامان اور مالی طور پر ان کے سروں پرموجود رہا۔ نائن الیون کے نا خوشگوار سانحات کے بعد افغانستان پر امریکا کی قیادت میں نیٹو کے تحت دنیا کے 40ممالک کا افغانستان پر قبضہ ، طالبان کی حکومت کو تاراج کرنا، کھیت،کلیان، باغات، شہری و دیہی آبادیوں، سکولوں، مدارس ، ہسپتالوں اور نظام زندگی کی تباہی اور افغان عوام کے قتل عام میں بھارت پوری طرح شریک تھا۔ چناں چہ اس پورے منظر نامے میں جمعیت علماء اسلام منطقی رائے کی حامل ہے کہ بھارت نے انتہائی گھنائونی اور انسان کش پالیسیا ں اپنا رکھی ہیں۔ تسلیم کہ دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں ،جنرل پرویز مشرف رجیم ان استعماری ممالک کے کندھے سے کندھا ملا کر افغانوں کی بربادی میں شامل ر ہی۔ جس کے خلاف جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور دوسری دینی جماعتوں نے پاک افغان دفاع کونسل،بعد ازاں متحدہ مجلس عمل کے تحت زبردست تحریک چلائی اور یقینا جنرل مشرف رجیم کی اس تابع اور برادر کُش پالیسی نے ملک پاکستان کو بھی طرح طرح کی آزمائشوں اور مصائب سے دو چار کئے رکھا ۔ گویا پرویز مشرف کی افغان پالیسی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ثابت ہوئی ۔ کابل کے اسٹیج پر سجائی گئی نئی سامراجی بازی میں پاکستان کے لیے کوئی جگہ نہ رہنے دی گئی ۔ امریکا نے بھارت کو پہلو میں بٹھایا ۔نتیجتاً افغانستان کی اس نئی صورتحال کے باعث پاکستان عسکری گروہوں کی آماجگاہ میں تبدیل ہوا۔ جس کا خمیازہ ستر ہزار سے زائد جانوں کے ضیاع کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اس ناسور سے اب بھی چھٹکارا نہ پایا جاسکا ہے ۔ چناں چہ جب اس نوع کا مؤقف سامنے آئے گا تو بادی النظر میں اس کا مضر اثر کشمیری عوام کی طویل جدوجہد،افغان عوام ،افغان طالبان اور حزب اسلامی کی بے پناہ قربانیوں پر مشتمل آزادی کی طویل تحریک پر پڑے گا۔بالخصوص افغان طالبان نے افغان عوام کی حمایت سے امریکا کو نکلنے اور مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ لہٰذا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے سیاسی جنگ کے لمحہ اپنے اصولی مؤقف سے انحراف نہیں کرنا چاہئے ۔ کشمیری عوام پر نریندر مودی کی فاشسٹ حکومت نے ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں ۔ یہی وطیرہ بھارت کی سیکولر کانگریسی حکومتوں میں بھی رہا ہے اور حیرت انگیز طور پر نئی دہلی پر حکمران ان دو جماعتوں کا نقطہ نظر کشمیر اورپاکستان بارے یکساں ہے۔ افغانستا ن کے اندر استعماری قبضہ گر ممالک کی معاونت میں بھارت کی مداخلت اور معاونت یکسانیت اور واضح لائن رکھتی ہیں ۔ حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے اندر بعض سیاسی حلقے کانگریس کی طرح بی جے پی کی حکومت ،ان کی پالیسیوں سے بھی قطعی ہم آہنگی اورموافقت رکھتے ہیں ۔ امریکی نمائندہ خصوصی زلمئے خلیل زاد نے اپنے دورہ بھار ت کے دوران بھارت کو افغان طالبان سے تعلقات بہتر بنانے ،ان سے مذاکرات کر نے کی تجویز دی تو افغان طالبان کی جانب سے مثبت رائے سامنے آئی۔ البتہ یہ واضح کرنا ضروری سمجھا کہ بھارت نے ہمیشہ افغان دشمنوں کا ساتھ دیا ہے۔ افغان طالبان ہو یا حزب اسلامی دونوں جماعتیں سمجھتی ہیں کہ بھارت اور پاکستان اپنے تنازعات باہمی طور پر حل کریں ۔خصوصاً کشمیر ی عوام کی اخلاقی حمایت کرتے ہوئے دونوں ممالک کو قضیہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے موقف کا اعادہ کرنا چاہیے۔ جے یو آئی کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کا پچھلے دنوں، اتوار25اکتوبر کو کوئٹہ کے نواح ’’ہزار گنجی ‘‘ میں دھماکا پی ڈی ایم جلسہ ناکام بنانے کی غرض سے کرایا جانے کا الزام درست نہیں ہے ۔ یعنی مولانایہ کہتے ہیں کہ یہ دھماکا پاکستان کے اداروں کا کیا کرایا تھا۔یا 27 اکتوبر کو پشاور کے اندر مدرسہ میںدھماکا ملک کے اداروں پر تھوپنا کسی صورت تسلیم کرنے لائق نہیں ۔ معروضی حقائق یہ ہیں کہ ہزار گنجی دھماکا ،کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بی ایل اے کے گروہی جنگ کا شاخسانہ تھا ۔ جس میںاپنے منحرف و مخالف افراد کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا تھا۔ مزید برآں پشاور مدرسہ دھماکا کرنے والے بھی شناخت کے لحاظ سے مخفی نہیں ہیں۔جنہیں بدیہی طوربھارت اور کابل کے خفیہ اداروں نے پاکستان کے خلاف محفوظ کر رکھا ہے۔یہ گروہ ہی عوامی نیشنل پارٹی پر حملہ آور تھے ۔ان ہی نے مولانا عبدالغفور حیدری مولانا فضل الرحمان ، مولانا محمد خان شیرانی پر خودکش حملے کر ائے تھے۔ الگ ان سے داعش بھی نہیں ہے ۔جس نے کابل یونیورسٹی کو طلباء و طالبات کے خون سے سرخ کردیا ۔ کابل شہر پر راکٹ باری کی۔گویا اس حقیقت کو جھٹلانا نہیں چاہیے۔ قدموں کے نشان کابل ہو یا بھارت یہاںپاکستان کی طرف آتے ہیں۔ بہر کیف ملک میں سول و جمہوری معاملات میں مداخلت بلاشبہ ہو رہی ہے ۔ آئین کے وقار،پارلیمنٹ کی با لا دستی اور حاکمیت کا سوال درپیش ہے۔ لہٰذا اس باب میں سیاسی و جمہوری احتجاج و تحریک بہر طور جاری رکھنی چاہیے۔ البتہ سیاسی جنگ میں حقائق مسخ کرنے کی سعی جائز نہیں۔