وطن عزیز میں بڑھتی ہوئی آبادی کیساتھ مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں اور انکو حل کیے بغیر ہم ترقی کی دوڑ میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ان مسائل میں سے ایک بڑا اور پیچیدہ مسئلہ ٹریفک نظام کی بدحالی اور بے ترتیبی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹریفک حادثات کی شرح بہت بلند ہے۔ سالانہ ہزاروں افراد مختلف ٹریفک حادثات کا شکار ہوتے ہیں ، سینکڑوں جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور متعدد افراد عمر بھر کی جسمانی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک کا نظام بہت پرانا اور خستہ حال ہے اگرچہ بڑے شہروں میں وقتاً فوقتاً سڑکوں کی مرمت کی جاتی ہے اور نئی سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ہوتی رہتی ہے لیکن اسی تناسب سے گاڑیوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ عوام کی اکثریت ٹریفک قوانین سے نابلد ہوتے ہوئے بھی سڑکوں پہ اودھم مچائے رکھتی ہے۔ اس ضمن میں،میں اور قائداعظم یونیورسٹی سے میری ٹیم گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے پاکستان میں ٹریفک قوانین اور نظام میں نئی جدت اور نئی ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے کے لیے ایچ ای سی کیساتھ مل کے اس ( گرینڈ چیلنج فنڈ ) پراجیکٹ پرکام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک اور اس سے جڑے مسائل کو حل کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔ گزشتہ ہفتے سی ڈی اے کے آفس میں اسلام آباد ڈپٹی کمشنر سے میٹینگ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اسلام آباد ٹریفک پولیس اور سی ڈی اے مل کر ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کررہے ہیں اور میں انکا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں خاص طور پر چیئرمین سی ڈی اے انوار الحق اور انکے آئی ٹی ممبر نعمان خالد اور بی آر ٹی کے ڈائریکٹر قاضی عمر کا تہہ دل سے مشکور ہوں، جنہوں نے اس پراجیکٹ میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اسکول آف سوشیالوجی کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں 60/ 70 فیصد ٹریفک حادثات کی وجہ موٹر سائیکل ہیں۔ صرف اسلام آباد میں سالانہ چالیس ہزار موٹر سائیکلوں کا اضافہ ہو رہا ہے جبکہ گاڑیوں کی تعداد اس سے دوگنی ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کا رش، بیہنگم ٹریفک میں موٹر سائیکلوں کا اژدھام اور بنا لائسنس کے اناڑی ڈرائیورز کی بھرمار ، کار پارکنگ کی عدم فراہمی اور تیز رفتاری ہمارے بنیادی مسائل ہیں۔ جولائی 2022 ء سے لے کر فروری 2023ء تک،فیڈرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ میں کل رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد چوہتر ہزار پانچ سو چوبیس ہے۔ ان میں سے بہتر ہزار چار سو بتیس گاڑیاں پرائیویٹ ہیں جن میں موٹر سائیکل اور لگثری گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ ان میں موٹر سائیکل لگ بھگ چالیس ہزار سات سو چھبیس ہیں۔ اسی عرصہ میں سرکاری گاڑیوں کی مد میں تقریباً چودہ سو موٹر سائیکلوں کا اضافہ ہوا ہے (جن میں صرف بارہ بسیں شامل ہیں) جو آبادی کے تناسب سے اتنہائی کم ہیں۔ ہمارے پراجیکٹ کا پہلا ہدف اسلام آباد شہر ہے اور ہمارا عزم ہے کہ ٹریفک قوانین میں جدت اور سمارٹ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ایک بہترین مثال قائم کی جائے۔ ہمارے پراجیکٹ میں سمارٹ پارکنگ، سمارٹ روٹ، اور سمارٹ جرنی پلانر وغیرہ شامل ہیں، جن کے اطلاق سے ٹریفک نظام کو کنٹرول کرنے ، منظم و مربوط طریقے سے چلانے اور پارکنگ جیسے مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اسلام آباد کے مختلف عوامی مقامات، بازار اور تجارتی مراکز جیسے اتوار بازار اور بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز کے اردگرد ٹریفک کو منظم کرنے سے حادثات میں نمایاں کمی ہوگی اور ٹریفک جام کے پیچیدہ مسئلے سے نجات ممکن ہوگی۔ اس حوالے سے، پہلے مرحلے میں سی ڈی اے ہمارے بنائے ہوئے پروٹو ٹائپ ماڈلز کا اطلاق کرئے گا۔ سمارٹ پارکنگ کے ذریعے ڈرائیور حضرات موبائل ایپ کے ذریعے پہلے سے جان سکیں گے کہ مطلوبہ مقام / مارکیٹ پر پارکنگ کی جگہ خالی ہے یا نہیں ؟ یا بے پناہ رش کی صورت میں انہیں پہلے سے آگاہی فراہم کی جائے گی کہ کونسا متبادل راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اگرچہ سی ڈی اے پہلے سے پارکنگ کے مسائل پر توجہ دے رہا ہے لیکن ہماری ٹیم نے انہیں سمارٹ پارکنگ اور اسکے فوائد سے آگاہ کیا اور نئے طریقے کو آزمانے اور اس کے استعمال پر بریفنگ دی۔ اسلام آباد میں پبلک ٹرانسپورٹ کو مزید بہتر، فعال اور کارآمد بنانے کیلیے سی ڈی اے نے لگ بھگ ایک سو ساٹھ نئی بسیں سسٹم میں شامل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ عوام کی اکثریت میٹرو بس کا روزانہ استعمال کرتے ہیں جن میں بے پناہ رش ہوتا ہے لہذا انکی تعداد میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ تمام بسیں ماحول دوست ہونے کے ساتھ لوگوں کو آسانی فراہم کریں گی۔ ان میں زیادہ تر بسیں الیکٹریکل ہیں جبکہ چند بسیں ہائی برڈ ہیں ، آپ انہیں جلد ہی اسلام آباد کی سڑکوں پر رواں دواں دیکھیں گے۔ اس مشن میں اسلام آباد سیف سٹی اتھارٹی بھی ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ہم اس کے لیے آی جی اسلام اباد ناصر اکبر خان نیازی اور انکی سیف سٹی ٹیم کے مشکور ہیں۔ اس حوالے سے شہر بھر میں لگے کیمروں کی مدد سے ٹریفک اور امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کیا جائے گا۔ ہمارے پراجیکٹ کے تمام امور و مقاصد کو نظام کا حصہ بنانے میں دونوں ادارے ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ اس جدید نظام کے تحت ٹریفک کا نظام بہت بہتر اور جدید بنیادوں پر استوار ہو جائے گا۔ لیکن اس حوالے سے میں یہ کہتا چلوں کہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں ایسے پراجیکٹ پر کام کرنا اور اسے باقاعدہ نظام کا حصہ بنانا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ پاکستانی عوام جدید نظام، رجحانات اور قوانین کو اپنانے میں کافی سہل پسندی اور روایتی تذبذب کا شکار ہوتی ہے۔ نیز ایسے نئے تجربات کرنے اور انہیں متعارف کرواتے ہوئے بہت سے مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن بطور ایک باشعور اور ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ہمارا مقصد اپنے ملک اور اسکے نظام کو بہتر اور جدید بنیادوں پر استوار کرنا اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیئے۔ میری اور میری جی سی ایف ٹیم کی بھی یہی کوشش ہے کہ ہم معاشرے میں کسی مثبت اور مفید نظام کا حصہ بنیں جو ہماری عوام کیلیے کارآمد اور مفید ثابت ہو۔ ٭٭٭٭٭