گزشتہ شام کی بات ہے،دفتر میں تھا، کسی کام سے اپنے کمرے سے باہر نکلا ۔میرے کمرے کے باہر ایک ہال ہے جس میں ایک سائیڈ پر میگزین سیکشن کے لوگ جبکہ سامنے نیوز سیکشن کے بعض ڈیسک ہیں جبکہ دائیں ہاتھ پر مانیٹرنگ ڈیسک کے لئے مختلف ٹی وی سکرینیں لگی ہوئی ہیں۔ان پر مختلف پاکستانی اور غیر ملکی نیوز چینلز چلتے رہتے ہیں۔ ایک سپورٹس چینل بھی ہے۔آج کل پی ایس ایل کے میچز ہو رہے ہیں،گزرتے گزرتے اچٹتی نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ ملتان سلطان اور کراچی کنگز کا میچ چل رہا ہے ۔ میری عادت ہے کہ اکثررات گئے تفصیلی جھلکیاں دیکھ لیتا ہوں، کام کے دوران البتہ کسی سپورٹس نیوز سائٹ سے ہر کچھ دیر بعد اپ ڈیٹ معلوم کر لیا۔ سلطان اور کنگز کا میچ گھنٹہ بھر پہلے سے لگا ہوا تھا۔ محمد رضوان بانوے رنز پر کھیل رہا تھا۔ سکینڈ لاسٹ اوور چل رہا تھا، میں نے چند لمحے رکنے کا فیصلہ کیا۔ اتنے میں رضوان نے باولر کی آگے پھینکی گیندکو اٹھا کر لانگ آف پر چھکا لگایا اور پھر اگلی گیند ایکسٹرا کور پر کھیل کر دو رنز لے لئے، یوں پی ایس ایل میں اپنی شاندار سنچری مکمل کر لی۔ ایک دو لڑکوں نے خوشی سے تالیاں بجانی شروع کر دیں۔ میچ کی تفصیلات نوٹ کرنے والے مانیٹرنگ ڈیسک کے سب ایڈیٹر نے نظر اٹھا کر دیکھا اور پھر دھیرے سے بولا، ’’یہ رضوان بہت لکی ہے، اس کی قسمت ہی اسے کھیلا رہی ہے۔ ‘‘یہ سن کر بے اختیار میرے منہ سے نکلا،رضوان صرف لکی نہیں بلکہ بے پناہ محنتی بھی ہے ۔ بعد میں سوچتا رہا کہ محمد رضوان کی کامیابی کی وجہ اس کی قسمت ہے یا محنت ؟ یہ بھی کہ انسان کو کامیاب ہونے اور ٹاپ پر جانے کے لئے کس کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے؟ قسمت یا محنت؟ اگر میری دلچسپیاںمتنوع نہ ہوتیں اور ایک سے زیادہ موضوعات پر پڑھنے اور لکھنے کا شوق نہ ہوتا توشائد سپورٹس جرنلزم کو اختیارکرتا۔ مجھے کرنٹ افیئرز اور سیاسی تجزیہ نگاری بھی پسندہے ، ادب ، کتابوں ، تاریخ اور فلم وغیرہ پر بھی لکھنا اچھا لگتا ہے۔ البتہ کھیلوں سے محبت کرنے والے ایک صحافی کی حیثیت سے میں طویل عرصے سے سپورٹس نیوز اور سپورٹس ایڈیشنز پڑھتا آیا ہوں۔ اہم انٹرنیشنل سپورٹس ویب سائٹس بھی ،جبکہ بہت سے نامور کھلاڑیوں کی بائیوگرافی کتابیں بھی پڑھی ہیں۔ میرے پاس ای بکس میں اتنے زیادہ انٹرنیشنل کرکٹرز کی بائیوگرافیز جمع ہیں کہ کم لوگوں کے پاس ہوں گی۔سپورٹس پر لکھتا بھی رہتا ہوں۔صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ فٹ بال، ٹینس اور بعض دیگر کھیلوں کے سپرسٹارز کی داستان حیات پڑھنے سے اندازہ ہوا کہ کامیابی کے لئے صرف قسمت درکار نہیں۔ ان تمام کھلاڑیوں نے بے پناہ محنت ، مستقل مزاجی اور اپنے کھیل کو مسلسل نکھارتے رہنے سے معراج پائی۔ محمد رضوان ہی کو دیکھ لیں۔ چند سال پہلے تک وہ ایک اوسط درجے کے بلے باز تھے ، وکٹ کیپر نسبتاً بہترتھے ، مگر ان میں ہارڈ ہٹنگ کی صلاحیت موجود نہیں تھی۔ محمد رضوان کا کھیل دراصل ون ڈے کرکٹ سے فطری مناسبت رکھتا تھا، جہاں پچاس اوورز کا کھیل ہے اور نوے پچانوے یا سو کا سٹرائیک ریٹ ہی خوب سمجھا جاتا ہے۔ رضوان کے لئے یہ پرفیکٹ تھا، وہ پچیس تیس اوورز وکٹ پر ٹھیر کر بڑے شاٹس کھیلے بغیر صرف اچھی پلیسنگ اور تیز رفتار رننگ سے سنگلز، ڈبلز اور اکا دکا چوکا لگا کر مناسب رنز بنا لیتا۔ون ڈے میں مڈل آرڈر میں کھیلنے والے بلے باز کے لئے ساٹھ ستر رنز بنا لینا اچھی کارکردگی ہے۔ اتفاق سے پچھلے چار پانچ برسوں میں ون ڈے کرکٹ کم ہوتی گئی اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو’’ بھاگ ‘‘لگ گئے ۔دنیا میںکتنی ہی ٹی ٹوئنٹی لیگز ہوتی ہیں، ان کے علاوہ مسلسل دو ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ پچھلے دوبرسوں میں ہوئے۔ پچھلے سال ایشیا کپ بھی ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں ہوا۔ محمد رضوان کے لئے ٹی ٹوئنٹی آسان نہیں ۔ اس فارمیٹ میں صرف بیس اوورز ہی ہیں اور ان پر تیزی سے رنز بنانے پڑتے ہیں، ایک سو چالیس پچاس کا سٹرائیک ریٹ ہی اچھا سمجھا جاتا ہے۔ بلے باز کو پچاس گیندیں کھیل کر کم از کم اسی پچاسی ، نوے رنز بنانے چاہئیں۔ رضوان نے ایک تو اوپنر کے طور پر کھیلنا شروع کر دیا تاکہ زیادہ گیندیں کھیلنے کا موقعہ ملے اور یوں رنز بنانے کے امکانات بہتر ہوجائیں۔یہ کام مشکل ہے۔ بطور وکٹ کیپر اسے مسلسل تیز رفتاری سے بھاگ دوڑ کر کیپنگ کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان اگر پہلے فیلڈنگ کرے تو رضوان کو بیس اوورز وکٹ کیپنگ کرنے کے صرف چند منٹوں بعدبطور اوپنر کھیلنے آنا پڑتا ہے۔ موسم گرم ہو تو کھلاڑی پسینے پسینے ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں بیٹنگ کرتے ہوئے بھی پندرہ بیس اوور کھیلنا اور تیز رننگ کے ساتھ بڑے شاٹس کھیلنا بہت مشکل اور چیلنجنگ ٹاسک تھا۔ رضوان نے اپنی فٹ نیس اتنی بہتر بنائی کہ وکٹ کیپنگ اور اوپنر کے طور پر بیٹنگ کی بھاری ذمہ داری اٹھا سکے۔ دوسرا چیلنج بھی کٹھن تھا، ٹی ٹوئنٹی میں چھکے ، چوکے لگائے بغیر گزار ا نہیں ہوسکتا۔ رضوان نے بڑی محنت کر کے بڑے شاٹس لگانے سیکھا۔ ایک انٹرویو میں خود رضوان نے بتایا کہ وہ اسسٹنٹ کوچ شاہد اسلم کے ساتھ گھنٹوںبڑے شاٹس کی پریکٹس کرتا رہا۔ اس نے لیگ سائیڈ پر پڑنے والی گیند کو اٹھا کرمڈ وکٹ اور سکوئرلیگ پر چھکا لگانے میں مہارت حاصل کر لی۔ آن سائیڈ پر اتنا مضبوط ہوگیا کہ آف سٹمپ سے باہر پڑی گیند کو بھی لیگ سائیڈ پر کھیل لیتا ہے۔ جب مخالف ٹیموں نے یہ دیکھا کہ اس کی آف سائیڈ قدرے کمزور ہے تو ادھر آئوٹ کرنا شروع کر دیا۔ اب رضوان نے اپنے کور ڈرائیو کو بہتر بنایا ہے اور لانگ آف پر چھکے لگانے بھی شروع کر دئیے ہیں۔ یہ سخت محنت اور بار بار مشق ہی سے ممکن ہوسکتا ہے۔ رضوان کی کامیابی اور ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں دنیا بھر میں اپنا نام منوا لینا اورٹاپ رینکنگ میں آ جانا کسی خوش قسمتی سے نہیں ممکن ہوا۔ اس کے پیچھے رضوان کے سینکڑوں گھنٹوں کی سخت مشقت ، محنت اور جان مارنا ہے۔ جب بعض دوسرے کھلاڑی گھومنے پھرنے اور مزا کرنے میں مصروف ہوں، رضوان تب بھی گرائونڈ میں مسلسل کوچنگ ٹیم کے ساتھ اپنی خامیوں کو دور کرنے اور کسی نہ کسی نئے شاٹ میں مہارت حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہوتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ محمد رضوان وائٹ بال کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی بنیادی اور لازمی ضرورت بنا ہوا ہے۔ اندازہ لگا لیں کہ صرف تین سال پہلے تک وہ کراچی کنگز میں تھا تو اسے ٹیم میں کھلایا نہیں جاتا تھا ،تب ویسے اس کی کارکردگی بھی خاص نہیں تھی۔اس کی کامیابی کا سفر شروع ہوا تو ملتان سلطان نے لیا اور کپتان بنا دیا۔ رضوان نے ایسی عمدہ کارکردگی دکھائی اور اتنے اچھے رنز بنائے کہ اپنی ٹیم کو ایک سال چیمپین بنا دیا، دوسرے سال بھی فائنل میں وہ لاہور قلندر سے بمشکل ہاری۔اس سال بھی ملتان سلطان کی کارکردگی اچھی ہے اور رضوان ہمیشہ کی طرح مسلسل رنز کر رہا ہے، وہ پی ایس ایل کا ٹاپ سکورر بن چکا ہے اور امکانات یہی ہیں کہ اس سال وہ سب سے زیادہ رنز بنا جائے گا۔ کامیابی کا یہی دنیا بھر میں جانا پہچانا فارمولا ہے۔ محنت، سخت محنت اور جان توڑ محنت۔ تب جا کر قسمت کی دیوی بھی مہربان ہوتی ہے۔ ورنہ قسمت کبھی نالائق اور سست انسانوں پر مہربان نہیں ہوتی۔ کسی کو ایک آدھ بار چانس مل گیا تو الگ بات ہے، ورنہ محنت کے بغیر وہ ہمیشہ ناکام ہی ہوتا رہے گا۔ لک بمقابلہ محنت کے موضوع پر نیٹ پر سرچ کرتے ہوئے بعض دلچسپ اقوال ملے۔ ٹینس کی مشہور کھلاڑی ماریا شیراپووا کی بات مجھے پسند آئی۔ وہ کہتی ہیـ:’’میرے کیرئر میں بہت سے خوش قسمتی کے لمحات موجود ہیں، مگر وہاں سخت محنت کی بھی فراوانی رہی ہے۔‘‘ صرف کھلاڑیوں کی بات نہیں بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں یہی نکتہ کارفرما ہے کہ صرف قسمت کے انتظار میں نہ بیٹھے رہوبلکہ محنت کرو، اچھی پلاننگ ، سینئرز سے مشاورت اور ایک ناکامی کے بعد پھر سے کھڑے ہو کر کوشش کرو۔ برسوں پہلے ایک بڑے عالم دین کی بات کسی نے سنائی، وہ لکھتے ہیں:’’ کوشش کی انتہا کا نام تقدیر ہے۔‘‘مجھے لگتا ہے کہ ان چند الفاظ میں پوری کہانی سمیٹ دی گئی ہے۔ ہم شائد بہت بار کسی کی جان توڑ محنت اور جدوجہد کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے، اسی لئے اس کی کامیابی کو خوش قسمتی کا نام دے دیتے ہیں۔ ایک بار کہیں پڑھا تھا کہ بل گیٹس سے کسی نے کہا، آپ پر قسمت مہربان رہی کہ اتنی کامیابیاں مل گئیں۔ اتنی سادہ بات سن کر وہ جل بھن گیا ،تلملا کر بولا،’’لکی سے اگر آپ کی مراد ہے کہ دس سال تک روزانہ سولہ گھنٹے کام کرنا، کئی کئی ماہ اتوار کی چھٹی بھی نہ کرنا اور اپنے آپ کو بالکل گھلا دینا تو یقین کریں میں واقعی بہت لکی ہوں۔ ‘‘