بالعموم کہاجاتا ہے کہ:’ہر فنکار کے اندر ایک بچہ موجود ہوتا ہے ۔‘ شادی کے دو ہی سالوں میں ہم نے بچوں کا وہ کوٹا پورا کر لیا جسے عام اصطلاح میں ’خوشحال گھرانا‘ کہا جاتا ہے۔ اسی زمانے میں ابتر ملکی صورتِ حال کے پیشِ نظر ہم نے اس سرکاری سلوگن کا بھی اس طرح مذاق اڑایا تھا کہ : آج کے دور میں دو بچے’’ٹل‘‘ جائیں تو ہیں اچھے! لیکن دو بچوں والا سنگِ میل عبور کرتے ہی فہمائشیں، فرمائشیں، آزمائشیں آنے لگیں کہ شاباش! ہمت نہ ہارنا… لگے رہو مُنا بھائی… گھر بھرا ہی اچھا لگتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اِسی ہلا شیری، تھپکی، دلاسے میں اِس عفیفہ کا ورود ہوا، جس کی مَیں آپ کو کہانی سنانے جا رہا ہوں، جو 2003ء کے ایک گرم مہینے میںگرم جوشی کے ساتھ وارد ہوئی۔ پرویز مشرف کا زمانہ، سرکاری لیکچرر کی چار پانچ ہزار تنخواہ، تیسرے بچے کے بعد اصلی رازق پہ ایمان کو متزلزل کیے دے رہی تھی۔ انھی دنوں سرکار کی جانب سے تنخواہ میں خاطر خواہ اضافے کی نوید ملی۔ اسی سال پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ مکمل ہوئی، اس کا الاؤنس شامل ہوا تو ماہانہ تقریباً دُگنا ہو گیا، سب نے اس کو بچی کی برکت قرار دیا۔ حوصلہ مزید بڑھا تو ایک اور آگئی، یقین کریں تین بیٹیوں کے بعد تو معاملہ گزارے سے خوشحالی کے دائرے میں داخل ہو گیا۔ بیسویں صدی والے دو بچوں کے آٹھ سال بعد آنے والی اکیسویں صدی کی اس پیداوار کی بابت کیا بتاؤں، پکے منھ سے انوکھی بات کرنے میں یہ بڑے بہن بھائی سبقت لیتی چلی گئی۔ ابھی چار سال کی تھی کہ اپنی چھوٹی بہن ارفع کے ساتھ میرے آس پاس کھیلنے میں مصروف تھی، مَیں اوپر والے برآمدے میں بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔ کھیلتے کھیلتے ننھی ارفع میرے قریب آئی اور بولی:’’ پاپا پاپا مجھے ریموٹ والی گاڑی لے دیں! ‘‘ مَیں نے وقتی ٹال مٹول کی خاطر کہہ دیا: ’’اچھا بیٹا!‘‘ وہ دوڑتی دوڑتی یہ خوش خبری اِس فلاسفر کے پاس لے گئی کہ پاپا مجھے ریموٹ والی گاڑی لے کے دے رہے ہیں۔ یہ اس بیان کی تصدیق یا تردید کے لیے میرے پاس آئی: اسی طرح کا سرد اور مصروفیت والا لہجہ دیکھ کے چلتی ہوئی ارفع کے پاس گئی اور برا سا منھ بنا کے بولی:’’ ارفع! پاپا کی شکل سے تو نہیں لگ رہا کہ وہ تمھیں گاڑی لے کے دیں گے۔‘‘ یہ تیسری جماعت میں تھی ، جب ایک دن سکول سے واپس آتے ہی کہنے لگی:’’ پاپا آج میری ٹیچر نے ایک عجیب سوال پوچھا!‘‘’’ کیا سوال پوچھ لیا ٹیچر نے؟‘‘ ’’ ٹیچر کہنے لگی: تمھارے پاپا کا نام اشفاق ہے، تم نبیہا احمد کیوں ہو؟ نبیہا اشفاق کیوں نہیں؟‘‘ ’’ تو پھر کیا جواب دیا میرے بچے نے؟‘‘ یہ پکا سا منھ بنا کے بولی: ’’ مَیں نے کہا ٹیچر! میرا نام نبیہا احمد ہے، میرے پاپا کا نام اشفاق احمد ہے ، میرے دادا کا نام نذیر احمد ہے، اور یہ ہماری خاندانی پرم پرا ہے۔‘‘ سچ بات یہ ہے کہ مجھے اس ’پرم پرا‘ کا اصل مفہوم بھی اسی دن معلوم ہوا۔اسی زمانے کی بات ہے کہ ایک دن مَیں اس کو کسی کام کی وجہ سے اٹھا رہا تھا، اور یہ لیت و لعل سے کام لے رہی تھی، آنکھیں بند کیے ہی کہے جا رہی تھی کہ مَیں سو رہی ہوں۔مَیں نے غصے سے کہا: ’’سو کیسے رہی ہو؟ اچھا خاصا مجھ سے باتیں کر رہی ہو!!‘‘ اسی حالت میں جواب دیا: ’’ پاپا وہ میرا ناں بس منھ جاگ رہا ہے۔‘‘ ایک دن مَیں اسے دودھ کا کوئی اڑیل دانت نکلوانے اپنی ایک سابقہ طالبہ اور موجودہ ڈینٹسٹ ڈاکٹرزوبیہ کے پا س لے جا رہا تھا، جو ہر بار دانت نکالنے کے بعد کہتی: ’سر اِسے فوری آئس کریم کھلائیں ‘…یہ مجھے راستے ہی میں کہنے لگی: ’’آج کسی ایسے ڈاکٹر کے پاس نہ چلیںجو دو بار آئس کریم کھلانے کا کہے!!‘ اسی ڈاکٹر سے دانت نکلوانے کے بعدمیرے کان میں سرگوشی کے انداز میںکہنے لگی: ’’یہ جو ڈاکٹر آئے دن ہمارے دانت نکال لیتی ہے، اس کے پیسے ہم اسے دیتے ہیں یا ڈاکٹر ہمیں دیتی ہے؟‘‘ ہم 2016ء میں شیخوپورہ سے لاہور منتقل ہوئے تو سکول کی ڈھنڈیا پڑی۔ ہمارے گھر کے بالکل پاس ایک اچھا سرکاری گرلز سکول ہے۔ میں نے اپنی سہولت کی خاطر اس کو سکول کی عمارت، کھلے میدانوں، بہترین لوکیشن، گھر کی قربت سے قائل کرنے کی بہت کوشش کی، سکول بھی لے گیا۔ پہلے تو چپ چاپ دیکھتی اور سنتی رہی، بالآخر تنگ آ کے کہنے لگی : ’’آپ مجھے گولی بھی مار دیں تو مَیں نیلی قمیص اور سفید شلوار نہیں پہنوں گی۔‘‘ ویسے آپس کی بات ہے ان سرکاری سکولوں کی یونیفارم، اساتذہ، ان کے لباس اور حُلیے سے متعلق ایک منھ پھٹ دوست پہلے بھی فرما چکے تھے کہ: ’’ پرائیویٹ سکولوں میں دس پندرہ ہزار لینے والی لڑکیاں ماڈل بن کے سکول آتی ہیں لیکن ان سرکاری سکولوں میں ساٹھ ستر ہزار لینے والے ہر دوسرے استاد نے اپنے چھوٹے بھائی کے پاجامے اور ہر تیسری استانی نے اپنی بڑی بہن کی متروک شدہ قمیصیں زیب تن کر رکھی ہوتی ہیں۔آخر میں ایک مزے دار واقعہ بھی سن لیں کہ ایک دن مَیں حسبِ عادت اپنے کمرے میں لکھنے پڑھنے کی اداکاری میں مصروف تھا۔ کن اکھیوں سے دیکھا کہ یہ بچی بری طرح سہمی ہوئی ہے اور ماں کی گرج چمک موسلا دھار برس رہی تھی۔ ’’ ذرا چلو تو سہی ڈاکٹر کے پاس! مَیں تمھارا صحیح والا علاج کراتی ہوں۔ شام کو تمھارے پیو سے بھی ٹھکائی کراتی ہوں، بند کراتی ہوں تمھارے یہ برگر، شوارمے، پِیزے، چاکلیٹیں، فوڈ پانڈے… خدا کی پناہ بازار کا گند بلا کھا کے گلے کا ستیا ناس کر لیا ہے، اس لڑکی نے! شہر کا سب سے مہنگا ڈاکٹر ہے… پانچ ہزار فیس ہے، صرف چیک کرنے کی … بڑی مشکل سے تمھارے ماموں نے ٹائم لے کے دیا ہے، پیو نے تو صرف فیس ہی دینی ہے، اور کوئی فکر ہی نہیں، ہر وقت کتابوں سے اَکھ مٹکا کرتے رہتے ہیں!!!‘‘ دو گھنٹے بعد واپسی ہوئی تو منظر نامہ مکمل بدلا ہوا تھا۔ تبدیلی آ نہیں رہی تھی بلکہ آ چکی تھی… بچی کے چہرے سے طمانیت چھلک رہی تھی اور ماں غیر متوقع طور پر ہاری ہوئی ٹیم کی طرح کھسیانی ہو رہی تھی… مجھے اس اچانک والی کایا کلپ پہ تجسس ہوا تو مَیں نے استفسار کیا۔ اب کے ماں کی بجائے بیٹی نے جواب دیا: ’’ پاپا ! آپ کو بتاؤں کہ ماما نے جاتے ہی شکایتوں کے انبار لگا دیے… ڈاکٹر صاحب! یہ پیزا، برگر ، شوارما کی جان نہیں چھوڑتی، بازار کی چیزیں کھا کھا کے گلے کا یہ حال کر لیا ہے … آپ خود ہی بتائیں مَیں کیا کروں؟‘‘ ’’پھر؟‘‘ ’’ پھر کیا؟ ڈاکٹر نے بس ایک ہی بات کی… میڈم آپ اپنی (Cooking) پہ توجہ دیں!!!!!!‘‘ بتانا یہ تھا کہ 29 فروری کو اسی بچی کی میاں فاروق اشرف وِرک کے صاحبزادے میاں عبداللہ وِرک ساتھ شادی ہوئی، آج ولیمہ ہے۔