میری والدہ آمدنی میں اضافہ کیلئے نوکری کرتی رہیں،لیکن اب اسکول جانے کے بجائے انہوں نے کسٹم میں نوکری کرلی۔مجھے ان کی سفیر براق یونیفارم آج بھی یاد ہے۔ ان کا کورنگی کریک جانا آج بھی یاد ہے۔ (دیکھیں زمانہ کتنا بدل گیا۔ کورنگی کریک اس وقت ایک بیابان جگہ تھی۔ آج وہ CBM سی تعلیمی درسگاہ اور کئی دوسرے ادارے بن گئے ہیں اور اب اس جنگل میں رونق ہوگئی ہے۔ زمین کی قیمت سینکڑوں سے کروڑوں تک پہنچ گئی ہے۔)جنرل مشرف آگے چل کر لکھتے ہیں ''مجھے ایک افسوسناک واقعہ جو آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ وہ 11 ستمبر 1948ء کو ہمارے بانی پاکستان قائداعظم کا انتقال پرملال ہوا،پاکستان کیلئے یہ ایک سانحہ تھا۔ جیسے کوئی بچہ 13 ماہ کی عمر میں اپنے والدین سے جدا ہوجائے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا سب سے موزوں و مناسب تذکرہ ان کے سوانح نگار مشہور امریکی مصنف اسٹینلے والپورٹ نے ان الفاظ میں کیا ہے۔ چند اشخاص تاریخ کا رخ بدلتے ہیں۔ ان سے کم دنیا کا نقشہ بدلتے ہیں اور کسی کو بھی ایک نئے ملک و قوم کی بنیاد رکھنے کا شرف بمشکل حاصل ہے۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کارنامے انجام دیئے۔'' اس سانحے نے نوزائیدہ ملک کا عزم اور خوشیاں ماند کردیں۔ جنازے کا جلوس بندر روڈ کراچی کی بڑی شاہراہ سے گزرنا تھا۔ جو ہمارے گھر سے بہت قریب تھی۔ مجھے یاد ہے، میں اپنے دوستوں کے ساتھ جلوس کے انتظار میں گھنٹوں ایک دیوار پر بیٹھا رہا۔ جب جلوس آیا تو سب لوگ رو رہے تھے۔ ہر آنکھ اشک بار تھی،میں بھی اپنے آنسو نہیں روک سکا،یہ ایک عظیم قومی نقصان اور غم کا دن تھا۔ پوری قوم ایک ناامیدی اور غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار تھی۔ یہ قائداعظم کے جانشین اور ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی ہی ہمت اور حوصلہ تھا کہ انہوں نے قوم کو اس افسردہ دلی کے ماحول سے باہر نکالا۔ اگر کراچی کے وجود میں جھانکیں تو گزرے، وہ دن اس شہر میں امن و سکون کے دن تھے۔امیدیں زندگی کی صعوبتوں پر حاوی تھیں اور اپنے نئے ملک میں رہنے کا اور اس کی تعمیر میں حصہ لینے کا جوش و ولولہ تھا۔ اگر 50 کی دہائی کا جائزہ لیں تو یہ اس شہر کا جڑنے اور ترتیب پانے کا دور تھا۔ عمومی طور پر لوگ سادہ تھے نسبتاً ایماندار تھے۔ ان میں اخلاقی اقدار ،رواداری،لحاظ اور مروت تھا۔ ایوب خان کے دور میں لوگوں نے حکومت کی سخت گیر انتظامی صلاحیت کا مظاہرہ دیکھا۔ انہیں اندازہ ہوا کہ اگر حکومت چاہے تو اپنی رٹ کیسے قائم کرسکتی ہے۔ اپنا حکم کس طرح منواسکتی ہے۔ میں یہاں مارشل لاء کی حمایت ہرگز نہیں کررہا۔ ہاں یہ بتارہا ہوں کہ جب حکومت ڈنڈا اٹھاتی ہے تو نظام کس طرح چلتا ہے۔ سب ناک کی سیدھ میں چل رہے تھے۔ نارتھ ناظم آباد اسی دور میں کراچی کے سینے پر ابھرا۔ نارتھ ناظم آباد کی بے شمار انفرادی شناخت میں ایک نمایاں پہلو یہ بھی تھا کہ سب سے زیادہ بڑے اور اس زمانے کے اعتبار سے کشادہ اور تمام سہولتوں سے آراستہ شادی ہال اس کے حصے میں بلاک ایل اور بلاک جے میں تعمیر ہوئے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ بہت صاف ستھرا اور کشادہ علاقہ تھا۔پرسکون بھی تھا، اس کی ذیلی سڑکیں بھی بہت وسیع تھیں ،اس لئے یہاں آنے والے مہمانوں کیلئے پارکنگ کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ یہ وہ دور تھا جب اورنگی ٹاؤن نے اپنے پر نہیں پھیلائے تھے۔ آج جب آپ اس علاقے کا سروے کریں ،تو آبادی اس طرح پھیلی کہ اس کا سرا آپ کو نہیں ملے گا۔ حسین ڈی سلوا ٹاؤن اور اس سے ملحق عبداللہ گرلز کالج نارتھ ناظم آباد کی جنوب میں ایک حد تھی۔ یہ بڑا پرانا کالج ہے۔ تعلیمی معیار کے اعتبار سے اس کی بڑی شہرت تھی۔ 80ء کی دہائی میں محترمہ پروین شاکر اس کالج میں پڑھاتی تھیں۔ کیا زبردست شاعرہ تھیں۔ نارتھ ناظم آباد کے ایچ بلاک میں رہتی تھیں۔ میں نے ان کے دو بار انٹرویوز کئے۔ جتنی باغ و بہار شخصیت کی مالک تھیں، اتنی ہی خوبصورت گفتگو کرتی تھیں۔ انسانی جذبات کے اظہار میں اپنے مخصوص طرز کی اس باکمال شاعرہ نے بعد میں سول سروس جوائن کی۔ پھر اسلام آباد میں ایک اندوہناک حادثے کے نتیجے میں زندگی کی بازی ہار جانے والی ''خوشبو'' کی طرح آخری وقت تک کسٹمز سروسز سے منسلک رہیں۔ اگر آپ کو کراچی کے اجلاس اور روشن چہرہ دیکھنا ہو تو پھر ان شخصیات کی فہرست پر ایک نظر ڈالیں جن میں چند یہ تھیں۔ جن پر کراچی فخر کرسکتا ہے۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس شہر کے افق پر کیسے کیسے ستارے درخشاں تھے۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا عبدالحامد بدایونیؒ، پیر الٰہی بخشِ، حکیم محمد احسن، ابراہہیم جلیس، مجید لاہوری، شوکت صدیقی،رئیس امروہوی،پروفیسر محمود حسین، پروفیسر اے بی حلیم، آئی آئی قاضی، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، حسین علی آفندی، پروفیسر احسان رشید، ڈاکٹر جمیل جالبی، سید ہاشم رضا،اے ٹی نقوی، میر خلیل الرحمن، ایس ایس جعفری، جمیل الدین عالی، معراج محمد خان، مولانا احتشام الحق تھانوی، ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین، علامہ رشید ترابی، پروفیسر غفور، محمود اعظم فاروقی، جسٹس دراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم، جسٹس سعید الزماں صدیقی، جسٹس ناصر اسلم زاہد، زیڈ اے نظامی، بیگم رعنا لیاقت علی خان، جنرل رحیم الدین یہ ایک ایسی فہرست ہے کہ نہ صرف ان شاندار اور عالیشان شخصیات کے ناموں کو مرتب کیا جائے تو ایک کتاب بن جائے گی اور ان میں سے ہر شخصیت کی زندگی، کارناموں اور تخلیقی کاوشوں کو جمع کیا جائے ،تو ان میں سے سب پر الگ الگ ایک ضخیم کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔ نارتھ ناظم آباد میں واقع عبداللہ گرلز کالج کی بات ہورہی تھی ،تو اس کے بالکل سامنے پاپوش نگر کا وسیع و عریض قبرستان ہے۔ اس قبرستان میں داخل ہوجائیں، اس کے کتبے پڑھتے جائیں، کیسی کیسی فقید المثال شخصیات یہاں آسودہ خاک ہیں۔ کراچی کی پلاننگ میں اگر آپ پوچھیں کہ سب سے زیادہ کمی کس چیز کی ہے تو میرا جواب ہوگا ،''قبرستان''۔ آبادیاں پھیل رہی ہیں۔ نئی آبادیاں سر اٹھارہی ہیں، لیکن اگر اس منصوبہ بندی میں کسی چیز کی کمی دکھائی دیتی ہے تو وہ قبرستانوں کیلئے مختص جگہ ہے۔ نارتھ ناظم آباد کے بلاک جے میں قبرستان کی جگہ 1966ء میں مختص ہوئی۔ ایک بہت بڑی آبادی کیلئے یہ قبرستان کی اراضی کم پڑگئی۔ بہت زیادہ دباؤ تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں یہ قبرستان قبر کے ساتھ قبر کے مصداق بھر چکا تھا۔ پاپوش نگر کے قبرستان میں یہ کیفیت بہت پہلے ہوچکی تھی۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاپوش نگر اور نارتھ ناظم آباد میں تدفین کا مزید عمل جاری رکھنے پر پابندی لگادی۔ گو کہ اس پر عملدرآمد تو نہیں ہورہا۔ ساتھ ساتھ نارتھ کراچی کے علاقے میں ایک نئے قبرستان کیلئے جگہ مختص کرنی پڑی۔ آپ اس بات کا اندزہ اس طرح لگاسکتے ہیں کہ ضلع جنوبی کے ایک گنجان ترین علاقے میں میوہ شاہ قبرستان پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔ اس کے علاوہ ایک قبرستان ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں ہے۔ یہاں تدفین کیلئے آپ کی جیب میں 60 سے 70 ہزار روپے ہونے چاہئیں۔ کراچی میں ایک کمی جس کا شدت سے احساس ہوتا ہے ،وہ اعلیٰ تعلیمی معیار کے حامل سرکاری اسکولز اور کالجز ہیں۔ (جاری ہے)