اداکار اسماعیل تارا بھی اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے مایوسی اور ناامیدی میں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والا یہ ستارہ بجھ گیا۔جو زندگی بھر لوگوں کے لئے ظرافت اور طنزو مزاح کی پھلجڑیاں بکھیرتا رہا۔وہ دنیا سے روٹھ گیا۔اسماعیل تارا کا کیریئر کئی دھائیوں پر محیط ہے وہ ہر فن مولا قسم کا کامیڈین تھے۔ پاکستان میں معین اختر اور عمر شریف جیسے باکمال فنکاروں نے ایک مدت تک لوگوں کے چہروں پر مسکان بکھیری۔اسماعیل تارا بھی کامیڈین کی اسی پہلی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔1949ء میں کراچی میں آنکھ کھولنے والے اسماعیل نے زندگی کی 73بہاریں دیکھیں انہوں نے بہت کم عمری میں ڈراموں کا آغاز کیا لیکن نقالی کی غیر معمولی صلاحیت نے بہت جلد انہیںایک نمایاں مقام دیدیا۔اس کے بعد انہیں پاکستان ٹیلی ویژن پر کام کرنے کا موقع میسر آ گیا۔پھر 1979ء سے 1984ء تک جاری رہنے والے کامیڈی شو ففٹی ففٹی میں اپنی بے ساختہ اداکاری کے سبب شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گئے۔ اس شو کو پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ کے کامیاب ترین شوز ہی میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس شو میں ماجد جہانگیر اور اسماعیل تارا پاکستان میں کامیڈین کی مقبول ترین جوڑی بن گئے۔یہ بڑا بولڈ شو تھا جس میں سماجی برائیوں اور دہرے معیار کو واضح طور پر اجاگر کرتے ہوئے، تنقید کی جاتی تھی، اسماعیل تارا چھوٹی اسکرین کے علاوہ بڑی اسکرین پر بھی قدم جمانے میں کامیاب رہے۔ان کی زندگی میں بڑے دکھ تھے، مسائل کے بہت سے گرداب نے بھی انہیں دبوچا لیکن ان کے فنی اسپارک میں آخر تک کوئی فرق نہیں پڑا۔ان کی وفات کے ساتھ ہی ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ کیسے کیسے نامور اور باکمال لوگ رخصت ہو رہے ہیں اپنی کارکردگی کے لاجواب نقش ہمارے ذہنوں میں ثبت کر کے اوجھل ہو رہے ہیں۔ افضال احمد ایک با کمال اداکار تھے، ایسا اداکار جس کی آنکھوں میں اس کے جسم کی نقل و حرکت سے زیادہ ایکشن تھا، انہوںنے جو کردار کیا دیکھنے والے کے ذہن میں منتقل کر دیا۔ان کے کیریئر پر نظر ڈالیں تو انہوں نے 1968ء سے 2012ء تک 384فلموں میں اپنی اداکاری کی جوہر دکھائے۔ 1968ء میں دھوپ اور سویرا نامی فلم سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا ان کی مشہور فلموں میں انسان اور گدھا ‘ پہلا وار‘ خبردار‘ سیدھا راستہ ہتھکڑی‘ شوکن میلے دی۔شریف بدمعاش‘اج دمہینوال‘ رنگا ڈاکو اور قربانی، انٹرنیشنل گوریلے جیسی کی میگاہٹ فلمیں شامل ہیں۔افضال احمد بڑے پڑھے لکھے اور سلجھے انسان تھے، اپنے کرداروں کے برخلاف عام زندگی میں وہ بڑی محبت کرنے والے روادار اور دوستوں کے دوست تھے۔جب تک صحت نے اجازت دی ملک میں تھیٹر کے معیار کو بہتر کرنے کے لئے کام کرتے رہے۔لاہور میں تماثیل تھیٹر ان کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔انہوں نے جدید سہولتوں سے مزین تھیٹر تعمیر کیا ،جو ان کا خواب تھا۔ایک وقت میں جب وہ فلموں کی شوٹنگ میں مصروف تھے ،تھیٹر کی تعمیر کا کام ان کی والدہ نے سنبھالا ہوا تھا۔ وہ کافی عرصے سے صاحب فراش تھے۔فالج اور برین ہیمبرج جیسے عارضے میں مبتلا تھے۔ایک ایسا فنکار جس کی اداکاری کا ایک منفرد اسٹائل تھا جس نے مختلف کرداروں کو اس طرح نبھایا کہ انہیں زندہ و جاوید کر دیا، بالآخر وہ زندگی کی جنگ ہار گیا اور اپنے رب کے سامنے پیش ہو گیا۔ پاکستان میں صنعت و تجارت‘ اور بنکنگ کے شعبے کی ایک ایسی شخصیت کا رخصت ہو جانا بڑا خلا پیدا کر گیا ہے،وہ اپنے شعبے میں وہ ایک شائننگ اسٹار کا درجہ رکھتے تھے، ایس ایم منیر کی خوبی یہ تھی کہ وہ مختلف الخیال اور طبقہ فکر کی شخصیات کے مابین ایک پل کا درجہ رکھتے تھے۔وہ ایک طرف نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے دوسری طرف وہ عمران خان کے دوست تھے ۔زرداری صاحب ان کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ پاکستان کے کسی بھی شہر کی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا معاملہ ہو فیڈریشن کے سامنے مختلف اور متنوع قسم کے مسائل ہوں۔معاشی کرائسس ہو یا تجارتی خسارہ‘ بنکنگ انڈسٹری کے مسائل ہوں ایس ایم منیر تمام معاملات میں بھر پور صلاحیت کے ساتھ ایک طویل مدت سے سرگرمی سے حصہ لے رہے تھے بلکہ ان کی گفتگو اور فکر میں ایک واضح اور دو ٹوک ویژن بھی تھا۔وہ محض ایک صنعت کار اور بینکار ہی نہیں بلکہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے سبب سب کے لئے مددگار اور معاون ثابت ہوتے تھے۔مختلف عہدوں پر نمائندگی کا فرض اور ذمہ داری جس طرح نبھاتے رہے۔اس کو اس شعبے کے تمام لوگ قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے تھے۔بحیثیت انسان میں نے انہیں ہمیشہ اپنے ساتھیوں کا سپورٹر پایا جب بھی کوئی مسئلہ سر اٹھاتا حکومت سے مذکرات کا مرحلہ ہو یا باہم اتفاق رائے پیدا کرنے م میںایس ایم منیر کی مفاہمانہ اور دانشمندانہ کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ اللہ نے بہت کچھ دے رکھا تھا۔بڑے فراخ دست‘ سخی دل اور ہمدرد انسان تھے۔بہت سے ویلفیئر اداروں کی نہ صرف خود مدد کرتے بلکہ ان کی معاونت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے لیکن خوبی یہ تھی کہ ان معاملات کی تشہیر کے خلاف تھے۔ایسی بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں کی حامل شخصیت کا اچانک رخصت ہو جانے سے ایک ایسا خلاء پیدا ہو گیا ہے جو کافی وقت تک پر نہیں ہو سکے گا۔پروردگار ان کے لئے اگلی منزلیں آسان فرمائے۔ ٭٭٭٭٭٭