آزادی ملنے کے دس بارہ برس کے بعد ایک ہندوستانی انجینئر نے ستلج ویلی پروجیکٹ کی انہار پر ایک کتاب لکھی۔ اس میں ضمناً ذکر تھا کہ بٹوارے کے وقت ضلع فیروز پور کے غیر مسلم ڈپٹی کمشنر کو تبادلے کا حکم مل چکا تھا۔ فیروز پور اور زیرہ کی تحصیلوں میں مسلمان اکثریت میں تھے۔ اس بنا پر یہ علاقہ پاکستان کا حصہ ہوتا تھا۔ مہاراجہ بیکایز کو یہ خبر ملی تو اس نے پنڈت نہرو کو متنبہ کیا کہ اس صورت میں لامحالہ ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہو گا کہ ریاست کا نظام آبپاشی ستلج ہیڈورکس سے منسلک ہے۔ اس وقت یہ خبر عام تھی کہ آخری مرحلے پر پنڈت نہرو کی ایما پر مائونٹ بیٹن نے ریڈ کلف سے حد بندی تبدیل کروائی۔ آزادی کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر اس سازش کی تصدیق ہو گئی۔ ایک مہم جو نامہ نگار نے انگلستان کے دیہی علاقے میں ریڈ کلف کا پرائیویٹ سیکرٹری ڈھونڈ لیا اور اس سے ردوبدل کی وضاحت چاہی۔ پرائیویٹ سیکرٹری نے اعتراف کیا کہ ’’ہمارے دفتر میں کانگرس نے جاسوس چھوڑ رکھے تھے، آخری روز رات کے بارہ بجے ہمارا سٹینو ریڈ ریڈ کلف کے نام ایک خط لے کر آیا۔ ریڈ کلف سویا ہوا تھا۔ میں نے خط لینے سے انکار کر دیا اور کہا Get Lost، اگلتے روز مائونٹ بیٹن نے ریڈ کلف کو ظہرانے پر بلوا کر تبدیلی کروائی۔ ایسا ہی کچھ ضلع گورداس پور کے ساتھ ہوا، گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، تقسیم ہند کے فارمولے یا طے شدہ اصول کے مطابق گورداسپور کو پاکستان میں شامل ہونا تھا، ابتدائی طور پر یہ تاثر موجود تھا کہ گورداسپور پاکستان میں شامل ہو گا جبکہ دونوں آزاد ریاستوں بھارت اور پاکستان کی قطعیٔ حدود کا اعلان چودہ اگست کو ’’بائونڈری کمیشن نے کرنا تھا۔ چودہ اگست کو بائونڈری کمیشن نے بھارت اور مغربی پاکستان کے درمیان سرحد کا اعلان کرتے ہوئے ضلع گورداسپور کو بھارت میں شامل کر دیا۔ اس اعلان کو سنتے ہی مولانا مودودی نے کہا: ’’گورداسپور کی بھارت میں شمولیت کشمیر کے بھارت سے الحاق اور اس پر بھارتی تسلط کی کھلی سازش ہے۔ پاکستان کو فوراً ایک آدھ بٹالین فوج بھیج کر ریاست کا تعلق بھارت سے منقطع کر دینا چاہئے ورنہ ایک مرتبہ بھارت ریاست میں گھس گیا تو اسے بے دخل کرنا آسان نہیں ہو گا۔ پاکستان بننے کے آٹھ، دس دن کے بعد جب کسی طرح سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تو بقول میاں طفیل محمد مولانا مودودی بہت مضطرب ہوئے اور کہا ’’اگر یہاں دارالسلام میں ایک سو بندوق بردار ہوتے تو میں لاہور جانے سے پہلے دریائے راوی پار کر کے ریاست کا تعلق بھارت سے منقطع کرنے کا انتظام کرتا،خدا معلوم پاکستان کے ذمہ دار کیا سوچ رہے ہیں‘‘۔ 30اگست 1947ء کی صبح ہم لوگ ایک فوجی کانوائے کے ذریعے دارالسلام سے لاہور پہنچ گئے، یہاں آتے ہی مولانا مودودی نے دوسرے روز وزیر اعلیٰ پنجاب نواب افتخار خان ممدوٹ سے ملاقات کی اور معاملے کی نوعیت اس قدر نازک اور توجہ طلب تھی کہ مولانا مودودی نے چند گھنٹے کا توقف بھی مناسب نہیں سمجھا، اس ملاقات میں مولانا نے نواب ممدوٹ وزیر اعلیٰ پنجاب سے کہا نواب صاحب! آپ ہمارے متعلق اور ہماری آپ کے بارے میں جو رائے بھی رہی ہو وہ اپنی جگہ، اب ہم سب لوگ اور پوری قوم ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ اگر خدانخواستہ اس کشتی کو کوئی نقصان پہنچا تو پوری قوم خطرے میں پڑ جائے گی۔ میرے نزدیک اس وقت پاکستان کو درپیش مسائل میں سب سے اہم مسئلہ اور سب خطرات سے بڑا خطرہ کشمیر کو زبردستی بھارت میں شامل کئے جانے کا ہے اور ریڈ کلف ایوارڈ نے دراصل بھارت کے لیے کشمیر کا راستہ کھول دیا ہے۔ میری دانست میں مسلمان اکثریت کا ضلع گورداسپور بھارت کو بلا وجہ نہیں دیا گیا بلکہ بھارت کو کشمیر ہڑپ کرنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے دیا گیا ہے تا کہ وہ جب چاہے کشمیر میں داخل ہو جائے۔ اس لیے میری رائے یہ ہے کہ اول تو پاکستان بلاتوقف کشمیر پر قبضہ کر لے اور اگر ایسا کرنا بوجوہ ممکن نہ ہو تو کم از کم اس زمینی راستے کو کاٹ دیا جائے جس سے بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہو سکتی ہے۔ مولانا مودودی نے نواب ممدوٹ سے یہ بھی کہا ’’پنجاب میں فوج کے ہزاروں سابق ملازمین موجود ہیں، انہیں منظم اور متحرک کر کے کشمیر پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان لوگوں کو اسلحہ فراہم کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ کچھ نہ کچھ اسلحہ ان کے پاس موجود ہے، اس طرح مہاراجہ کشمیر سے مہاراجہ کشمیر سے ’’سٹینڈ سٹل‘‘ حالات کو جوں کا توں رکھنے کا معاہدہ بھی نہ کیا جائے‘‘ نواب ممدوٹ وزیر اعلیٰ پنجاب نے مولانا مودودی کے اس مشورے کا بڑی بے اعتنائی کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا ’’مولوی صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ: ہم اپنے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں‘‘ افتخار ممدوٹ سے یہ ملاقات رانا اللہ داد کے ذریعے سے ہوئی تھی۔ اس مایوس کن ملاقات کے اگلے روز ہی مولانا مودودی نے چودھری محمد علی سے رابطہ کر کے کہا ’’آپ وزیر اعظم لیاقت علی خان تک میری یہ بات پہنچا دیجئے کہ وہ فی الفور کشمیر کی فکر کریں‘‘ ’’چشم دید گواہوں سے ماخوذ‘‘ فیروز پور اور گورداسپور کے اضلاع جو طے شدہ اصول کے مطابق پاکستان کا حصہ تھے، ہماری غفلت اور بندوکی عیاری، چابکدستی اور پہل کاری کی نذر ہو گئی، یوں ہم نہ صرف ان اضلاع سے محروم ہوئے بلکہ ہم نے کشمیر اور ریاست بیکایز کو بھی کھو دیا۔ نہرو کی قیادت اندرا گاندھی کی رہنمائی میں انہوں نے ہر فیصلہ ساز کے گرد معجزوں کا جال بچھا رکھا تھا، مخبروں سے ملنے والی خبروں کے ذریعے انہوں نے گورداسپور اور فیروز پور کو ایک ہی ذریعے سے حاصل کیا۔ حافظ شیرازی نے کہا تھا ؎ اگر آں ترک شیرازی بہ دست آرد دل مارا بہ خالِ بندویش نجشم، سمرقندو بخارا را اگر وہ شیرازی معشوق ہمارا دل تھام لے، تو اس کے دل فریب تِل کے عوض سمر قندو بخارا بخش دوں! حافظ شیرزی بے چارہ شاعر تھا، شاعر بے بدل۔ سمرقندوبخارا بخش نہیں سکا مگر بندی عاشق پنڈت نہرو کی گوری محبوبہ، حافظ کی طرح باتیں بنانے میں مہارت اگرچہ نہیں رکھتی تھی لیکن اس نے گورے شوہر کو اپنے نازو کا گرویدہ بنائے رکھا۔ لیڈی مائونٹ بیٹن نے اپنے محبوب کو مایوس نہیں کیا، نہرو کی خوش گفتاری کے عوض اس نے فیاضی کی انتہا کر دی، نہ صرف اپنے شوہر کو رام کیا بلکہ اس کی وساطت سے ریڈکلف پر بھی حاوی ہو گئی۔ نہرو کی عاجزانہ خوش گفتاری نے وہ کیا ’’جو تیمور لنگ کے تلوار بھی بمشکل کر سکتی تھی۔ گوری محبوبہ وقت رخصت فیروز پور اور گورداسپور کے اضلاع ہی نہیں، جنت نظیر کشمیر اور بیکانیر بھی بخشتی چلی گئی۔