نوے کی دہائی میں کراچی میں ایم کیو ایم کی سیاست خوف کی علامت بن کر ہر حساس پاکستانی کے دل پر وار کرتی تھی۔اگرچہ بانی ایم کیو ایم کی خوف اور ہیبت کے وار کرتی ہوئی سیاست کا شکار ہونے والے اہل کراچی تھے اور کراچی کی حدود کے باہر ایم کیو ایم کا راج نہیں تھا لیکن اس کے باوجود جو خبریں کراچی سے آتی تھی وہ خوف زدہ کر دینے والی تھیں۔بے یقینی اور عدم تحفظ سانپ کی طرح شہر میں سرسراتے۔ پھرتے تھے کب تعلیمی ادارے بند ہو جائیں،کب امتحان ملتوی ہوجائیں، کسی کو کچھ خبر نہ ہوتی۔وجہ وہی سیاسی جماعتوں کی ہنگامہ آرائی۔ ایسی جماعتیں سیاسی جماعت سے زیادہ پریشر گروپ بن کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتی ہیں۔بسااوقات ان کے سامنے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں۔انہی دنوں خواتین ڈائجسٹ میں ایک افسانہ پڑھا جس میں کراچی کے ماحول کی عکاسی کی گئی تھی کہ کس طرح سیاسی جماعت کے مسلح جتھے شہر کے امن کو تباہ کر دیتے ہیں عام شہریوں کی زندگیاں خوف اور یقینی کی سولی پر لٹکی رہتی ہیں۔ اس افسانے میں ایک سادہ سی نظم تھی۔جس نے ایک طالبہ کے دل پہ اثر ،کیا نظم کے کچھ مصرعے آج بھی یاد ہیں کل شہر میں ہونگے ہنگامے تم مت آنا تم مت آنا۔ سنا ہے پھر کل سڑکوں پر طاغوتی لشکر اتریں گے، وہ لوگ جو اپنے بچوں کو اس ملک سے باہر بھیج چکے ،کل لے کے غریب کے بچوں پھر تن کے سڑک پہ نکلیں گے۔ کل شہر میں ہونگے۔ ہنگامے تم مت آنا۔۔۔! شہر میں بدامنی اور بے یقینی کا یہ ماحول ہم نے خود نہیں دیکھا تھا مگر گھروں میں بیٹھے ہوئے ہمارے دل بھی رہتے تھے یہ ایسی عدم تحفظ بے یقینی کی فضا میں زندہ رہنا کیسا لگتا ہے۔پھر ہماری بدقسمتی سیاست میں دھرنوں کی سیاست کا آغاز ہوا طویل دھرنوں کے موجد خیر سے وہی سیاستدان ہیں جو ایک طرف تو خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ، مگر ساتھ ہی اپنی ہر تقریر میں ریاست مدینہ کا حوالہ دے کر یہ کہنا نہیں بولتے کہ ریاست مدینہ میں کمزور اور طاقتور کے لیے ایک ہی قانون تھا۔ کوئی سیاسی جماعت جب ایک پریشر گروپ بنتی ہے تو ا س کے کارکن سیاسی روادی سے عاری مسلح جھتے بن جاتے ہیں اور ان جتھوں کے سامنے ریاست کا آئین اور قانون بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ جتھوں کی صورت میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔کیونکہ ان کے لیے مقدم اپنے سیاسی لیڈر کی ذات ہوتی ہے نہ کہ ملک کا آئین اور ریاست۔ یہ سیاست کی بدترین قسم ہے۔کل جو کچھ لاہور میں ہوا بالکل ایسی ہی صورت حال تھی۔شہر میں عدم تحفظ، بے یقینی کی صورت حال تھی۔۔معمول کے پروگرام کینسل کرنا پڑے۔متاثرہ علاقے میں موجود تعلیمی اداروں کو چھٹی دینا پڑی۔صورت حال اتنی زیادہ کنٹرول سے باہر تھی کہ بچوں کے سالانہ امتحان تک کینسل کرنا پڑے۔ جس روز یہ سیاسی تماشا برپا ہوا اس روز پریس کلب میں خواتین جرنلسٹ کے حوالے ایک شاندار تقریب کا اہتمام تھا۔سینئر خاتون صحافی عالیہ خان نے اس کا سپانسرز کے ساتھ مل کے یہ اہتمام کیا تھا۔ بہت سی خواتین تب لوگ حالات کی سنگینی کی وجہ سے اس تقریب میں نہیں جاسکے،میں اس تقریب میں شرکت نہیں کر پائی،مجھے اس کا افسوس ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ زمان پارک میدان جنگ بنا ہوا تھا۔شہر کے اکثر راستے بند تھے، پی ٹی آئی کے کارکن پنجاب پولیس پر پیٹرول شیلنگ کرکے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو بے بس کرتے رہے۔دوسری طرف پنجاب پولیس کو خصوصی ہدایات تھیں کہ انہوں نے غیر مسلح رہنا ہے۔مگر کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے وہ بھی آنسو گیس کے گولے برساتے رہے ۔پی ٹی آئی کے جتھوں نے پنجاب پولیس اور پولیس نے پی ٹی آئی کے کارکنان کی درگت بنائی اور بیسیوں پولیس اہلکار اور افسران زخمی ہوئے ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں کیا یہ کسی کے بیٹے نہیں وہ بھی پاکستان کے شہری ہیں،کیا ان کے جان اور مال کی تحفظ کی ضمانت ریاست پاکستان کا آئین نہیں دیتا۔ عمران خاں نے جو سیاسی تماشا کل لاہور میں لگایا مجھے حیرت ہے کہ لوگ اس کو بھی سپورٹ کرتے ہوئے نظر آئے۔(ایسا تماشا مریم نواز نے بھی نیب میں پیشی کے موقع پر لگایا تھا)عمران خاں ہو یا مریم نوازیا کسی اور سیاسی جماعت کا لیڈر کس طرح کے رویے کو سپورٹ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایک سیاسی رہنما کی وجہ سے لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ جو لوگوں پر گزر رہی ہے، جو ان کے ورکرز پر گزر رہی ہے ،جو عام شہریوں پر گزر رہی ہے وہ ہر چیز سے بے نیاز صرف اپنی ذات سے بھرے ہوئے ایک سیاسی رہنما ہیں ان کے سامنے اپنی ذات کا تحفظ پاکستان سے بھی بڑھ کر ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ یاسمین راشد کو تھا۔ان کی آڈیو لیکس سے یہی اندازہ ہوتا ہے۔اور ان کی تشویش بالکل درست تھی وہ صدر پاکستان عارف علوی کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کہہ رہی ہیں۔یاسمین راشد نے تحریک انصاف کی اہم رہنما ہیں وہ خود اس میں تسلیم کر رہی ہیں کہ ہمارے ورکرز پٹرول بم پھینک رہے ہیں۔ کہتی ہیں کہ حالات برے سے بدترین ہو رہے ہیں خان صاحب سے کہیں کہ وہ بات مان جائیں۔یہ کیسے لیڈر ہے کہ دوسرے ان کو حالات کی سنگینی کا احساس دلا رہے ہیں۔ خان صاحب اس سنگین اور حساس موقع پر بھی اپنے ایم این ایز سے مزید بندے بھیجنے کا کہ رہے ہیں اس دھمکی کے ساتھ کی ورنہ پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔بات بالکل سیدھی سی ہے عدالت نے ایک سیاسی جماعت کے رہنما کو بلایا ہے۔ تو اس میں کیا مسئلہ ہے آپ کیوں نہیں عدالت جا کے پیش ہو جاتے۔ ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگانا اچھا ہے یا قانون کے مطابق عدالت میں پیش ہونا جس سے یقیناً آپ کے سیاسی قد میں اضافہ ہوتا۔ لگتا ہے کہ کچھ طاقتورحلقے اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ عمران خاں پاکستان کے قانون اور آئین سے بالاتر ہے۔ یہ عنصر پاکستان کی سیاست کے منظر نامے کو غیر متوازن کرنے کے لیے کافی ہے۔