بشیرساربان اور جانسن کی دوستی کراچی کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔یہ شہر بڑی تیزی سے پھیلا۔چھوٹی چھوٹی بستیاں نمودار ہوئیں پھر سر اُٹھاتی چلی گئیں۔ نیو کراچی اس میں ایک قدیم بستی ہے۔ایوب خاں کے دور میں یہ بستی بھی اسی انداز سے ابھری جس طرح کورنگی کا آغاز محض چند سو کوارٹرز تعمیر کر کے کیا گیا تھا۔60ء کی دہائی میں جب نارتھ ناظم آباد اپنی شاندار منصوبہ بندی کشادہ سڑکوں اور صحت و تعلیم کے تمام لوازمات سمیٹے کراچی کے سینے پر اُبھر رہا تھا اسی دور ایک سنسان علاقے میں جہاں دائیں بائیں کوئی بھی آبادی اس سے متصل نہیں تھی۔نیو کراچی نسبتاً کم آمدنی والے افراد کے لئے پناہ گاہ بنا۔یہ بستی بہت تیزی سے پھیلی اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ شہر کے دور افتادہ علاقے میں قائم ہونے کے باوجود یہ علاقہ ٹرانسپورٹ کے مختلف ذرائع کے ذریعے شہر سے جڑا ہوا تھا۔ اس لئے یہاں پر رہنے والوں کے لئے پہلے ہی دن سے آمدورفت طویل ضرور لیکن مسئلہ نہیں تھی۔4Kجیسے کئی روٹس کی بسیں نیو کراچی سے اپنے سفر کا آغاز کر کے ٹاور تک جاتی تھیں۔ایوب خان کے دور میں ہی کریم آباد کی تعمیرات بھی شروع ہوئیں یہاں پر خاصا بڑا مخصوص علاقہ پرنس کریم آغا خان کی درخواست پر صدر مملکت نے اس کمیونٹی کے لئے مختص کر دیا ۔یہ ماننا پڑے گا کہ آغا خان کمیونٹی نے پاکستان کی صنعتی اور کاروباری شعبہ میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔کراچی میں یہ بہت ہی آرگنائزڈ کمیونٹی ٹی ہے۔انہوں نے کریم آباد سے لے کر عائشہ منزل تک کے اپنے لئے مختص علاقے کو اپنے جماعت خانے کے ساتھ ساتھ مخصوص انداز کے فلیٹ تعمیر کئے اور ان کی بڑی تعداد اب تک یہاں بڑے پرسکون اور منظم انداز سے رہتی ہے۔کیونکہ کریم آباد کا علاقہ لیاقت آباد جسے عرف عام میں لالو کھیت کہا جاتا تھا، ملحق تھا اس لئے یہ بہت جلد ایک پررونق علاقے میں بدل گیا ۔لالو کھیت 50اور 60کی دہائی میں ایک گنجان آبادی میں تبدیل ہو گیا تھا۔یہاں پر چھوٹے مکانات کی اکثریت تھی کیونکہ تعمیرات ہر قسم کے قواعد و ضوابط کی پابندیوں سے آزاد تھیں۔آبادی کے بڑھتے دبائو اور چاروں طرف پھیلتی آبادی کے سبب یہاں ایک بہت بڑا کاروباری مرکز بن گیا۔دس نمبر سے لے کر تین ہٹی تک سڑک کے دونوں جانب مختلف اشیاء کی دکانوں نے اسے اس وقت پورے کراچی کے خریداروں کے لئے ایک پرکشش اور سستی مارکیٹ میں تبدیل کر دیا اور اس علاقے کو اس وقت زیادہ شہرت ملی جب اس نے سیاسی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔فاطمہ جناح کے خلاف ایک شہر سے ایوب خان کی شکست کے بعد گوہر ایوب نے جو جلوس نکالا اور اپنی رعونت اور تکبر کا مظاہرہ کیا۔لالو کھیت میں رہنے والے پرانے لوگ اس کے عینی شاہد ہیں۔جس میں گولیاں بھی چلیں اور خون بھی بہا۔تین ہٹی سے آگے آزادی کے بعد آنے والے سرکاری ملازمین کی رہائش کے لئے تعمیر ہونے والے مارٹن کوارٹرز گرومندر تک پھیلے ہوئے تھے اور لالو کھیت کی پشت پر کراچی میں آزادی کے بعد پلی منظم آبادی پر مشتمل رہائشی بستی پی بی آئی کالونی واقع تھی۔اس کے دوسرے طرف کی حدود ناظم آباد سے ملتی تھیں اس طرح کئی میل پر پھیلی ہوئی رہائشی بستیاں کراچی کی کشش کو بڑھاتی جا رہی تھیں۔ ایوب خان کے دور کا ایک انتہائی اہم منصوبے کا افتتاح صدر یحییٰ خان نے کیا۔جس سے سندھ کی پوری معاثرت اور سماج پر گہرے اثرات مرتب ہوئے یہ حیدر آباد سے کراچی کو ملانے والی شاہراہ ’’سپر ہائی وے‘‘ تھی۔ یہ جدید شاہراہ اٹلی کی ایک مشہور کمپنی نے 12بارہ کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کی تھی۔یہ پاکستان میں بننے والے 145کلو میٹر کی پہلی عالمی معیار کی ہائی کے تھی۔کراچی کا نکھرتے چہرے میں یہ ایک زبردست اضافہ تھا۔اس سے کراچی اور حیدر آباد جُڑگئے۔اب سندھ کے یہ دونوں بڑے شہر محض ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی مسافت پر تھے۔آئیے آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہیں۔ یہ کراچی میں ڈرگ روڈ کا علاقہ تھا۔ایئر پورٹ سے شہر آنے والی شاہراہ پر جسے آج ہم شاہراہ فیصل کے نام سے جانتے ہیں۔ٹریفک روک دیا گیا تھا۔تالیاں بج رہی تھیں نعرے لگ رہے تھے۔محافظ دستے کی گاڑیاں گزر رہی تھیں کہ اچانک سب کچھ رُک گیا۔صدر ایوب کی کار بیچ ڈرگ روڈ پر رُک گئی۔وہ کار سے باہر نکل آئے ان کے ساتھ پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی نائب صدر لنڈن بی جانسن بھی کار سے باہر نکل آئے۔پولیس کے اعلیٰ افسران ان کی طرف دوڑ پڑے اخبار نویسوں نے انہیں گھیر لیا ،سب جاننا چاہتے تھے کہ اچانک یہ پہیہ جام کیسے ہو گیا سب کی نظریں ایوب خان پر لگی ہوئی تھیں۔پولیس کے اعلیٰ آفیسران کو کچھ دور کھڑی اونٹ گاڑی کی طرف اشارہ کر کے کچھ کہہ رہے تھے۔پولیس آفیسر اس اونٹ گاڑی کی طرف دوڑے جو سائیکلوں رکشائوں اور عوام کے پیچھے کھڑی تھی اور اس کا اونٹ اپنی لمبی گردن اٹھائے اس سارے منظر کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔امریکی نائب صدر اس اونٹ کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔شاید وہ اس اونٹ کو کوئی عجیب و غریب جانور سمجھ رہے تھے۔کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا کچھ ہو رہا ہے۔اتنے میں پولیس آفیسرز اس اونٹ گاڑی کے پاس پہنچ گئے۔گاڑی کا ساربان اس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا پولیس افسروںکو دیکھ کر وہ سہم گیا۔ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا کہ میں تو کیماڑی سے سامان لے کر جا رہا ہوں۔میرا کوئی قصور نہیں۔میں تو غریب آدمی ہوں۔پولیس افسروںنے اسے تسلی دی اور اسے بتایا کہ وہ اسے صدر ایوب سے ملوانے لے جا رہے ہیں۔ایوب خان کا نام سن کر وہ تھر تھر کانپنے لگا۔پولیس والے اس کا بازو پکڑ کر ایوب خان کے پاس لے گئے۔ایوب خان نے اس سے کہا تم گھبرائو نہیں ،یہ امریکہ کے نائب صدر ہیں تم سے ملنا چاہتے ہیں۔انہیں سلام کرو۔یہ سن کر اونٹ والے کی جان میں جان آئی۔اس نے امریکی نائب صدر کو سلام کیا۔ایوب خان نے بشیر ساربان سے کہا یہ تمہارا نام پوچھ رہے ہیں تم اپنے اور اپنے اونٹ کے بارے میں کچھ بتائو۔ ایوب خان کی بات سے اونٹ والے میں اعتماد پیدا ہوا۔اس نے بتایا میرا نام بشیر ہے۔اونٹ گاڑی چلاتا ہوں، لیاری میں رہتا ہوں۔ایوب خان نے اپنے امریکی مہمان کو سب کچھ بتایا۔یہ دلچسپ بات تھی کہ صدر فیلڈ مارشل ایوب خان جانسن اور بشیر ساربان کے مابین مترجم کا کردار ادا کر رہے تھے۔ امریکی نائب صدر نے سب کچھ بہت دلچسپی سے سنا اور بشیر ساربان کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کہ آج سے ہم اور تم دوست ہیں۔میں تمہیں امریکہ بلائوں گا۔تمہیں وہاں کی سیر کرائوں گا۔چند لمحوں میں بشیر ساربان کی دنیا ہی بدل گئی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے بشیر ساربان اور اس کے اونٹ نے بین الاقوامی شہرت حاصل کر لی۔ لنڈن بی جانسن نے بعد میں بشیر ساربان کو امریکہ کے خاص مہمان کے طور پر مدعو کیا۔وہ اسے اپنے آبائی گائوں ٹیکساس لے گئے ،اسے قیمتی تحفے دیے ،پاکستان میں امریکی سفارتخانے کو ہدایت کی کہ بشیر ساربان اور اس کے اہل خانہ کا خاص خیال رکھا جائے۔بشیر ساربان نے وائٹ ہائوس میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے بھی ملاقات کی۔کینیڈی نے اس کے اعزاز میں خصوصی ڈنر کا اہتمام کیا اور بشیر ساربان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم وائٹ ہائوس میں آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں اور آپ کی آمد ہمارے لئے مسرت کا لمحہ ہے۔ (جاری ہے)