میں نے اپنی رپورٹ مکمل نہیں کی تھی ۔ ہیڈ لائٹس دیکھ کر میں نے مائوتھ پیس میں کہا۔’’ میں آپ سے بعد میں رابطہ کروں گی ۔‘‘ ’’کیا .....‘‘ مسٹر داراب اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ میں نے رابطہ منقطع کردیا ۔ پھر میں تیزی سے جھاڑی کی طرف بڑھی ۔ اس کی آڑ لے کر میں ان لوگوں کی نظر سے بچ سکتی تھی ۔ وہ سڑک مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی تھی ، میرے لیے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا کہ وہ دونوں سمتوں میں کہاں تک تھی ۔ آنے والی گاڑی کی ہیڈ لائٹس خاصی دور تھیں جب میں نے انہیں دیکھا تھا۔ وہ گاڑی خاصی تیز رفتاری سے قریب آتی جا رہی تھی ۔ اس گاڑی میں طالبان ہی ہوسکتے تھے ۔ وہ اتنی قریب آگئی کہ میں نے جان لیا ۔ وہ ایک جیپ تھی ۔ اس پر سوار طالبان، سایوں کے مانند نظر آ رہے تھے ۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ اچانک اس کی رفتار تیزی سے کم ہونے لگی تھی۔ پھر وہ میرے بالکل سامنے رُک ہی گئی ۔ اس خیال سے میرے اعصاب میں تنائو آگیا کہ کیا انہیں معلوم ہوگیاہے کہ یہاں میں ہوں ؟ یہ خیال آتے ہی میں نے اپنا ریوالور نکال لیا لیکن میں یہ بھی جانتی تھی کہ صرف اس ریوالور سے میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی ۔ میں طالبان کے چھ سائے دیکھ رہی تھی ۔ جیپ کا انجن بند کردیا گیا ۔میرا خیال تھا کہ طالبان اب جیپ سے اتریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ میری سمجھ میں نہیں آسکا کہ وہ جیپ میں کیوں بیٹھے رہے تھے ۔ ان کی آوازیں اتنی مدھم ہو کر میرے کانوں تک پہنچ رہی تھیں کہ مجھے ان کا ایک لفظ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔ جیپ کی ہیڈ لائٹس کچھ دور تک روشنی پھیلا رہی تھیں ۔ کیوں رکے ہیں یہ یہاں؟ یہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔ طالبان کے کندھوں سے خطرناک ہتھیار لٹکے ہوئے تھے ۔ اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو میرا ریوالور ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ یہ بات میں اوپر بھی لکھ چکی ہوں۔ میرے پاس کلاشنکوف یا ایسا ہی کوئی خطرناک ہتھیار ہوتا تو میں ان چھ طالبان کا مقابلہ کرسکتی تھی۔ ہمارے ہتھیار ان تھیلوں میں تھے جو کھائی میں گرچکے تھے۔ جب کاکڑ کو ختم کیا گیا تھا تو اس کے سرھانے ایک کلاشنکوف رکھی تھی جو سونیا نے اٹھالی تھی۔ ’’ کیا یہ میں اپنے ساتھ رکھ لوں لیڈر ؟ ‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا تھا ۔ ’’ رکھ لو ۔‘‘ میں نے اسے جواب دیا تھا ۔ لیکن جھاڑی کی آڑ لیے ہوئے مجھے خیال آیا کہ وہ کلاشنکوف اس وقت میرے پاس ہونی چاہیے تھی۔ ویسے اس صورت حال میں اس کا امکان نہیں تھا کہ وہ یہاں میری موجودگی سے واقف ہوں گے۔ چند منٹ بعد دو طالبان جیپ سے اتر کر وہیں ٹہلتے ہوئے آپس میں باتیں کرنے لگے جو مجھے صاف سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ پھر دس منٹ اور گزرے تھے کہ مغرب کی جانب سے ایک گاڑی آتی نظر آئی۔ وہ بھی جیپ ہی تھی جو پہلی جیپ کے قریب آکر رکی اور اس میں سے دو طالبان اترے۔ فوراً ہی پہلی جیپ کے باقی چار طالبان بھی اتر آئے ۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ ان کے ساتھ دس گیارہ سال کے دو لڑکے بھی تھے جن کے ہاتھ طالبان نے پکڑ رکھے تھے ۔ وہ سب جب دونوں جیپوں کی ہیڈ لائٹس میں دکھائی دئیے تو میں نے دیکھا کہ دونوں لڑکے سہمے ہوئے تھے اور شاید ان کی آنکھوں میں آنسو بھی تھے اس لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ ان دونوں کو کہیں سے اغواکرکے لایا گیا تھا۔ دوسری جیپ سے جو طالبان اترے تھے، انہوں نے پہلی جیپ کا بونٹ کھولا۔ اب میری سمجھ میں بات آئی، جیپ وہاں اس لیے رکی تھی کہ اس کے انجن میں کوئی خرابی ہوگئی تھی۔ طالبان نے فون کرکے دو ایسے طالبان کو بلایا تھا جو موٹر مکینک ہوں گے ۔ چھ طالبان اس لڑکے کو لے کر دوسری جیپ میںجا بیٹھے ۔ سڑک اتنی چوڑی نہیں تھی کہ جیپ یوٹرن لے سکتی ۔ اسے آگے پیچھے کرکے اس کا رخ مغرب کی طرف کیا گیا اور پھر وہ تیزی سے آگے بڑھتی چلی گئی ۔ آنے والے طالبان میں سے ایک جیپ پر چڑھا۔ اس نے انجن اسٹارٹ کرنا چاہا لیکن وہ اسٹارٹ ہو نہ سکا ۔ انجن اسٹارٹ کرنے کی ناکام کوشش کے بعد طالب اتر کر اپنے ساتھی کے قریب پہنچا اب وہ دونوں جیپ کے انجن کی خرابی سمجھنے کی کوشش کررہے تھے ۔ اب وہ صرف دو تھے ۔ انہیں ختم کرنے کے لیے مجھے ریوالور چلانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ میں انجن کے عقب میں جاکر اپنے دونوں ہاتھوں سے ایک ہی وقت میں دونوں کی گردن توڑ سکتی تھی لیکن دونوں کی لاشیں طالبان کو مل جاتیں تو اب فضل اللہ کو یقین ہو ہی جاتا کہ مرکز میں ان کا کوئی دشمن آگیا ہے جبکہ ہمیں کوشش یہ کرنی تھی کہ مرکز کے بارے میں ساری چھان بین کرنے تک ان لوگوں کو اپنی موجودگی سے بے خبر رکھاجائے ۔ میں نے ایک اور خطرناک فیصلہ کیا ۔ اسی وقت میرے موبائل کی اسکرین چمکنے لگی ۔ کال بانو کی تھی ۔ ’’ جی بانو !‘‘ میں نے کال ریسیو کی ۔ آواز بہت ہی دھیمی رکھی تھی اور دونوں طالبان پر بھی نظر رکھی تھی ۔ اگر وہ میری دھیمی آواز بھی سن لیتے تو چونک جاتے لیکن وہ دونوں بہ دستور انجن سے ’’ بر سرپیکار ‘‘ رہے تھے ۔ ’’اتنی دھیمی آواز میں کیوں بول رہی ہو؟‘‘ بانو نے پوچھا۔ ’’مجھے فوری طور پر ایک قدم اٹھانا ہے بانو!اگر دیر ہوگئی تو میں وہ کام نہیں کرسکوں گی ۔ بس یہ اطمینان رکھیے کہ میں ابھی کسی خطرے میں نہیں ہوں ۔اب آپ مجھے کال مت کیجئے گا، میں خود کروں گی ۔ ‘‘ میں نے جلدی جلدی کہا اور رابطہ منقطع کردیا ۔ میرے دماغ میں یہ خیال چکرا رہا تھا کہ وہ دونوں میرے اقدام سے پہلے ہی انجن ٹھیک کرکے جیپ میں وہاں سے روانہ نہ ہوجائیں ۔ موبائل بند کرکے میں رینگی اور نیم دائرے میں گھومتی ہوئی جیپ کے عقب میں پہنچنا چاہتی تھی اور میں اس میں کام یاب بھی ہو گئی۔ دونوں طالبان ابھی انجن ہی میں الجھے ہوئے تھے۔ میں بہت احتیاط سے جیپ پر چڑھی ۔ بونٹ اس وقت بھی اٹھا ہوا تھا اس لیے امکان نہیں تھا کہ وہ مجھے جیپ پر چڑھتے دیکھ لیتے ۔ میں جیپ میں اتری اور خود کو پچھلی سیٹوں کے پائیدان میں اس طرح چھپا لیا کہ قدرے سکڑ کر لیٹ ہی گئی ۔ وہاں ایک چھوٹا سا ڈبا بھی رکھا تھا۔ لگ بھگ دس منٹ بعد ایک طالب جیپ میں ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔ اس مرتبہ وہ انجن اسٹارٹ کرنے میں کامیاب رہا تھا۔ میں نے بونٹ بند ہونے کی آواز سنی جس کے بعد دوسرا طالب بھی جیپ میں آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ جیپ حرکت میں آ گئی۔ صدف کے اس خطرناک اقدام کا کیا نتیجہ نکلا ؟ کل کے روزنامہ 92میں پڑھیے!