میں پانچ منٹ تک ساکت کھڑی رہی ۔ میں نے یہ امکان نظر انداز نہیں کیا تھا کہ شاید کاف مین کچھ بھول گیا ہو اور وہ لینے کے لیے واپس آئے ۔ جب وہ نہیں لوٹا تومیں کھڑکی پر چڑھی اور بہت احتیاط سے لیبارٹری کے فرش پر اتر گئی ۔ گھپ تاریکی میں کچھ نظر نہیں آسکتا تھا لیکن میں نے فوراً ٹارچ نہیں جلائی اور ساکت کھڑی رہی ۔ حرکت کرنے میں یہ اندیشہ تھا کہ میں کسی چیز سے ٹکرا جاتی اور ممکن تھا کہ کاف مین وہ آواز سن کر دیکھنے آتا کہ آواز کس چیز کے گرنے کی ہے ۔ دو تین منٹ گزرنے کے بعد میں نے ٹارچ نکالی ۔ اس کی روشنی میں ساری لیبارٹری کا جائزہ لیا اور پھر دبے قدموں اس طرف بڑھی جہاں وہ کاپی رکھی ہوئی تھی جس میں کاف مین کچھ لکھ کر گیا تھا ۔ میں نے کاپی کھولی تو معلو م ہوا کہ وہ ڈائری تھی جو کاف مین باقاعدگی سے لکھتا تھا۔ ہر تاریخ کے صفحے پر اس کی تحریر تھی جو پڑھی جاسکتی تھی ۔ میں نے اس صفحے کی تحریر توجہ سے پڑھی،وہ انگریزی میں تھی ۔ کاف مین کی ہینڈ رائٹنگ بہت اچھی تھی ، صاف پڑھا جارہا تھا ۔ چند جملوں سے مجھے اس ڈائری کی اہمیت کا اندازہ ہوا ، میں نے الٹ پلٹ کر کئی صفحات پر جستہ جستہ نظر ڈالی۔ اس میں فری مین میسن لاج کا بھی ذکر تھا ۔ کیا کیا جائے ؟ میرے دماغ میں سوال ابھرا ۔ اگر میں وہ ڈائری اپنے ساتھ لے جاتی تو یہ ممکن نہیں تھا کہ کاف مین اس ’’چوری‘‘ سے باخبر نہ ہوتا ۔ دوسری صورت یہ تھی کہ میں ڈائری کے صفحات کے فوٹو کھینچ لیتی لیکن یہ کام اندھیرے میں نہیں کیا جاسکتا تھا اور ٹارچ کی روشنی میں بھی کام نہیں بنتا ۔ کمرے میں روشنی کر کے ہی ایسا کیا جاسکتاتھا ۔ ڈائری کے اندراجات اتنے اہم تھے کہ انہیں چھوڑا نہیں جاسکتا تھا ۔ فوٹو کھینچنے کے لیے روشنی ضروری تھی ۔ میں نے سوچا کہ روشنی کرنے سے پہلے یہ معلوم کرلیا جائے کہ کاف مین سوچکا ہے یا نہیں ، اور اگر اسے اتنی جلدی نیند نہ آتی ہو تو اس کے سوجانے کا انتظار کیا جائے ۔ دوسرے یہ بھی ممکن تھا کہ کاف مین کی ضروریات کے پیش نظر طالبان نے اس کے لیے وہاں کوئی ملازم رکھا ہو ، اور اگر ایسا تھاتو وہ ملازم بھی کوئی طالب ہی ہوتا ۔ میں دبے قدموں اندرونی دروازے کی طرف گئی ۔ دروازے اور فرش کی درز سے یہ تو طے تھا کہ دوسری طرف روشنی نہیں تھی ۔ میں کچھ دیر دروازے سے کان لگائے کھڑی رہی کہ شاید کوئی کھٹکا یا کسی قسم کی آواز سنائی دے ۔ دو منٹ بعد میں نے بہت احتیاط سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی ۔ دروازہ اچھی قسم کا نہیں تھا ۔ کسی وقت بھی چرچرا سکتا تھا اس لیے احتیاط کی ضرورت تو تھی ۔ ایک اندیشہ یہ بھی تھا کہ کاف میں دروازہ بند کر کے گیا ہو لیکن ایسا نہیں تھا ، آہستگی سے دروازہ کھلنے لگا ۔ مجھے خیال آیا کہ اگر کاف مین دروازہ بند کرنا ضروری سمجھتا تو کھڑکی بھی کھلی نہ چھوڑتا ۔ احتیاط کے باعث دروازہ کھولنے میں تین چار منٹ لگے ۔ میں نے ٹارچ کی روشنی دوسری طرف ڈالی تو مجھے چھوٹی سی راہ داری میں دو دروازے دکھائی دیے ۔ ایک بائیں جانب اوردوسرا بالکل سامنے تھا ۔ اس دروازے کے نچلے حصے اور فرش کے درمیان کی درز میں مدھم نیلی روشنی دکھائی دے رہی تھی ۔ وہ نائٹ بلب ہی کی ہوسکتی تھی ۔ اسے دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ وہی کاف مین کے سونے کا کمرا تھا ۔ طالبان جس قسم کی زندگی گزارتے ہیں ، اس میں نائٹ بلب کی کوئی گنجائش نہیں ! میں چارقدم آگے بڑھا کر اس دروازے کے قریب پہنچی اور اس سے کان لگادیے ۔ کچھ وقت گزر گیا ۔ کسی قسم کی آواز نہیں سنائی دی ۔ میںنے دروازہ کھول کر دوسری طرف دیکھنے کی حماقت نہیں کی ۔ کاف مین اگر جاگ ہا ہوتا تو اس کا اندیشہ تھا کہ وہ مجھے دیکھ لیتا ۔ میں دبے قدموں لیبارٹری کی طرف واپس ہوگئی ۔ وہاں میں نے ٹارچ کی روشنی میں ایسی جگہ دیکھ لی جہاں چھپا جاسکتا تھا ۔ میں نے آدھا گھنٹا وہیں گزارا ،میرا خیال تھا کہ اتنی دیر میں تو کاف مین سو ہی گیا ہوگا ۔ میں اس جگہ سے نکلی جہاں میں نے خود کو چھپایا تھا ۔ لائٹ آن کر نے سے پہلے میں کھڑکی کی طرف گئی اور اس کے دونوں پٹ بند کردیے ۔ پھر دروازے کے قریب جا کر وہ سوئچ آن کیا جو کاف مین آف کر کے گیا تھا ۔ کمرے میں روشنی ہوگئی ۔ اس طرح میں ایک خطرہ مول لے رہی تھی ۔ جو کام مجھے کرنا تھا ، اس کی اتنی اہمیت تھی کہ اس کے لیے مجھے خطرہ مول لینا ہی تھا ۔ اس وقت بارہ بج چکے تھے ۔ یہاں تک پہنچنے ہی میں مجھے دو گھنٹے لگے تھے ۔ چھ بجے تک مجھے ’’ٹھکانے‘‘ تک پہنچنا تھا ۔ میرے پاس چار گھنٹے تھے جو ڈائری کے فوٹو بنانے کے لیے بہت تھے ۔ میں نے اپنا ریوالور نکال کر ڈائری کے قریب رکھ دیا ۔ فوٹو بناتے ہوئے مجھے ہر قسم کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا تھا ۔ لگ بھگ تین سو صفحات کی تصویر اتارنے میں عموماً جتنا وقت لگ جاتا ہے ، میں نے اس سے کم وقت میں کام مکمل کرلیا اور اطمینان کی سانس لی ۔ کسی خطرے کا سامنا کیے بغیر میں اپنا مقصد حاصل کر چکی تھی ۔ میں نے لائٹ آف کی اور ٹارچ کی روشنی میں کھڑکی تک پہنچی ۔ پھر ٹارچ بجھا کر کھڑکی کھولی ۔ باہر کاجائزہ لیا اور پھر کھڑکی پر چڑھ کر دوسری طرف اتر گئی ۔ میرے پاس ابھی اتنا وقت تھا کہ میں اور آگے جاسکتی تھی لیکن میں نے فوراً واپسی ہی ضروری سمجھی ۔ اگر آگے جانے کی صورت میں کسی قسم کا خطرہ پیش آجاتا اور میرا موبائل فون بھی کسی باعث میرے ہاتھ سے نکل جاتا تو مجھے بہت صدمہ ہوتا ۔ موبائل میں ایک اہم دستاویز تھی جسے جلد از جلد محفوظ کرنا تھا ۔ جو تصاویر میرے موبائل میں تھیں ، انھی کو میں دستاویز کہہ رہی ہوں ۔ طالبان کا مرکز مکمل سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا ۔ کہیں سے کسی قسم کی آواز نہیں آرہی تھی ۔ روشنی کا کوئی دائرہ اور کسی کا سایہ اب دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ میں نے زمین پر رینگتے ہوئے اپنا سفر شروع کیا ۔ میں نے سمتوں کا اچھی طرح خیال رکھا تھا لیکن دو گھنٹے تک رینگنے کے باوجود میں اس مکان تک نہیں پہنچ سکی جہاں میں نے بانو اور سونیا کے ساتھ پناہ لی تھی ۔ میں اس وقت اس خیال سے چکرا گئی کہ میں کہیں راستہ تو نہیں بھٹک گئی ! شاید اس طرف جانا چاہیے ، میں نے ایک سمت میں دیکھتے ہوئے سوچا اور اسی طرف رینگنا شروع کیا ۔ رینگتے ہوئے دس منٹ گزرے …پھر پندرہ منٹ ، بیس منٹ اور آدھا گھنٹا گزر گیا لیکن میں اس مکان تک پہنچنے میں کام یاب نہیں ہوسکی اور اس وقت تو میرے ذہن کو خاصا جھٹکا لگا جب میں ایسی جگہ پہنچی جہاں سڑک بنی ہوئی تھی ۔ اول تو میرے ذہن میں یہ خیال تھا کہ اس علاقے میں کوئی سڑک نہیں ہوگی ۔ دوسرے یہ کہ جب میںنے اس مکان سے نکل کر رینگتے ہوئے ایک سمت میں بڑھنا شروع کیا تھا تو کاف مین کے مکان تک پہنچتے ہوئے میں نے کوئی سڑک نہیں دیکھی تھی ۔ وہ سڑک دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ میں بھٹک چکی تھی ۔ صدف کے بھٹک جانے کے باعث کیا کچھ ہوا ؟ کل روزنامہ 92 میںملاحظہ فرمایے !