ہائی کورٹ نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 اے کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ یعنی نو آبادیاتی دور غلامی کی ایک نشانی بالآخر مٹانے کا حکم آ گیا ہے جو انتہائی خوش آئند ہے۔ برطانوی نو آبادیاتی نظام میں پولیس کو غیر معمولی اختیارات دے کر عوام میں خوف پھیلا کراور، قانون میں ایسی پیچیدگیاں رکھ کربھی کہ لوگوں کو جب جہاں چاہا سبق دکھا دیا ، برطانوی نو آبادیاتی نظام کے اندر کا خوف ختم نہ ہو سکا ۔چنانچہ چند ہی سالوں بعد برطانیہ نے ہندوستان میں نافذ فوجداری قانون میں ایک نئی دفعہ ڈال دی ۔ یہ دفعہ 124(a) تھی۔ یہ آج تک قائم و دائم ہے اور حکومت اپنے حریفوں کا ناطقہ بند کرنے پر تل جاتی ہے، تو اسی سامراجی دفعہ کا سہارا لیتی ہے۔ تاجر کے روپ میں آ کر یہاں کی ریاست پر قبضہ کر کے ، اس کے وسائل کو بے رحمی سے لوٹ کر ، جو فوجداری قانون یہاں نافذ کیا گیا اس کے باب ششم کا عنوان رکھا گیا ’’ ریاست کے خلاف جرائم‘‘۔ لیکن اس پھر بھی جی نہ بھرا۔ چنانچہ اس میں نئی دفعہ کا اضافہ کر دیا گیا کہ حکومت کی شان میں گستاخی بھی سنگین جرم ہو گا۔ حکومت کو بھی گویا ریاست کا تقدس دے دیا گیا۔ آج جو کہا جاتا ہے کہ سڑک پر کھڑا سپاہی بھی ریاست ہے ، یہ اسی جورسپروڈنس کا فکری ورثہ ہے۔سپاہی بھی ریاست ہے اور حکومت بھی ریاست ہے، بس عوام ہی شناخت کے بحران سے دوچار ہیں۔ دستور پاکستان کی روح بالکل مختلف ہے ۔ آئین کے آ رٹیکل 7 میںصرف بنیادی حقوق اور پالیسی کے رہنما اصولوں کی حد تک یہ قرار دیا گیا کہ یہاں وفاقی حکومت ، پارلیمان ، صوبائی حکومت ، صوبائی اسمبلیوں اور ہر اس ادارے کو ریاست سمجھا جائے گا جو ٹیکس عائد کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔ ذمہ داری کے تعین میں قطعیت کے لیے صرف اس دائرہ کار کے اندر ریاست کا یہ معنی ہے۔ عام حالات میں حکومت الگ چیز ہے اور ریاست الگ چیز ۔ مزاحمت تو پہلے ہی کچلی جا چکی تھی۔ اب1870 میں سیاسی مزحمت اور تنقید سے بے زار ہو کر برطانیہ نے ایک نیا قانون بنایا کہ اب صرف ریاست سے نہیں برطانوی حکومت سے بھی وفاداری لازم ہے اور اب برطانوی حکومت پر غیر وفادارانہ تنقید کی اجازت بھی نہیں ہوگی ۔ نیز یہ کہ حکومت کی توہین بھی ایسا ہی سنگین جرم سمجھا جائے گا جیسے ریاست کے خلاف کوئی جرم سرزد کیا گیا ہے۔یہ اہتمام غیر معمولی ہے کہ توہین حکومت کے خلاف بنایا گیا یہ قانون اسی باب میں درج کیا گیا جو ’ ریاست کے خلاف جرائم‘ سے متعلق تھا۔ اس قانون کے اطلاق کے وقت ، یعنی جب برطانیہ کی حکومت ہند نے اپنے ہی نافذ کردہ انڈین پینل کوڈ میں ترمیم کرتے ہوئے اس نئی شق کا اضافہ کیا ، کہا گیا کہ جی ہم سے غلطی ہو گئی۔ لارڈ میکالے صاحب نے بہت پہلے جو انڈین پینل کوڈ تیار کیا تھا ، یہ دفعہ اس مسودے کا حصہ تھی لیکن اس وقت اسے قانونی دستاویز کا حصہ نہ بنایا جا سکا تو اب اسے ہم شامل کر رہے ہیں۔گویا جو ہمیں مدون قانون دینے آئے تھے ان کی کارکردگی کا یہ عالم تھا کہ انہیں یہ خبر ملنے میں دس سال لگ گئے کہ جناب لارڈ میکالے صاحب کا بنایا تعزیرات ہند ادھورا ہے اور اس میں ایک اہم دفعہ تو ہم نے شامل ہی نہیں۔ یہ عذر کیوں اختیار کیا گیا؟ حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ جب مقامی لوگوں سے پوچھے بغیر، ان سے مشاورت کیے بغیر ، اپنے مفادات کی خاطر پورا فوجداری نظام کھڑا کر لیا گیا تھا تو اب اس میں ایک دفعہ کا اضافہ ایسی کون سی انہونی تھی کہ اس کی ایسی شان نزول بیان کی جاتی۔ تا ہم امکان یہ ہے کہ ایسا برطانوی نو آبادیاتی بندوبست نے خود کو سبکی سے بچانے کے لیے کیا تھا۔ رپورٹس تیار ہورہی تھیں کہ انگریزی عمل سے مقامی باشندے بہت خوش ہیں تو ایسے میں اس حقیقت کا اعتراف گوارا نہ تھا کہ ہمارے سامراجی بندوبست کو اب بھی چیلنجز کاسامنا ہے اور ہم اتنے نازک مزاج ہیں کہ ہم سے ہلکی سی تنقید بھی اب برداشت نہیںہوتی اس لیے ہم اب نیا قانون لا رہے ہیں۔یہ بات مگر اب بالکل واضح ہو چکی ہے کہ وہابی تحریک کو بے رحمی سے کچلنے کے بعد مسلمان علماء واعظین اور اہل قلم کی تنقید کا خوف تھا جس نے یہ قانون متعارف کرایا۔ چترا نشول سنہا کا کہنا ہے کہ یہ قانون اس سے پہلے برصغیر کی تاریخ میں کبھی بھی نافذ نہیں رہا۔ قانون کی اس دفعہ کے مطابق اگر کوئی شخص زبانی طور پر یا تحریری طور پر یا اشاروں سے یا کسی بھی ظاہری شکل میں وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے بارے میںنفرت پیدا کرتا ہے تا ان کی توہین کرتا ہے یا ان کے بارے میں عدم وفاداری پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ جرم ہو گا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اسی قانون میں لکھا گیا کہ Disaffection کا مطلب Disloyalty بھی ہو گا۔ یعنی اگر کوئی شخص کچھ ایسا کر دے جس لگے کہ وہ حکومت کا Loyal یعنی وفادار نہیں رہا تو قانون اس پر گرفت کرے گا۔ مزید وضاحت میں بتایا گیا ہے کہ اگر کسی کو کسی قانون پر کوئی اعتراض ہو تو وہ اس قانون میں تبدیلی کے لیے انی رائے کا اظہار کر سکتا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے اگر اس نے حکومت کی توہین کر دی یا حکومت سے نفرت کا اظہار کر دیا یا اس سے عدم وفاداری کے جذبات ظاہر کر دیے تو وہ بھی قانون کی گرفت میں آ ئے گا۔ اسی طرح حکومت کے کسی انتظامی یا دیر اقدامات پر ایسے تبصرے جو جن میں حکومت کے خلاف ناپسندیدگی کے جذبات ہوں یا نفرت ہو یا توہین ہو تو وہ بھی جرم ہو گا۔ اس جرم پر عمر قید تک کی سزادی جا سکتی ہے۔ چنانچہ جب بنگال لیجسلیٹو کونسل میں یہ قانون بنا کہ ایک لڑکی اور لڑکے کی شادی کی عمر کیا ہونی چاہیے تو بنگالی اخبار ’ بنگو باسی ‘ نے اس قانون پر تنقید کی تو اخبار کے مدیر پر یہ دفعہ لگا دی گئی(15)۔ایسے مقدمات کی ایک طویل دستیاب فہرست ہے جو برطانوی راج میں حکومت کی ’’ توہین ‘‘ پر قائم کیے گئے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی وہابی تحریک نے اپنا سیٹ اپ ختم کرنے کا اعلان کر دیا کہ چونکہ اب مسلمانوں کی ریاست بن گئی ہے اس لیے اب ہماری مزاحمت ختم۔ اب اس تنظیم کی ضرورت نہیں رہی ۔لیکن اس تحریک کے خلاف انگریز نے جو قانون بنایا تھا وہ ابھی تک رائج ہے۔اور اب اس کی زد میں ہمارے اپنے اہل سیاست آتے ہیں۔ پاکستان میں رائج نو آبادیاتی دور کا یہ قانون پاکستان کے آئین سے واضح طور پر متصادم ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔ اس تناظر میں عدالت کا فیصلہ بہت خوش آئند ہے مگر یہ محض ابتداء ہے۔ضرور ت اس بات کی ہے کہ نو آبادیاتی دور غلامی کے سارے قانونی ڈانچہ کو جڑ سے اکھاڑ کر اپنے لیے اپنے آئین کی روشنی میں اپنا قانون بنایا جائے۔