سندھ کے ایک نئے نویلے اسسٹنٹ کمشنر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے کہ موصوف سرکاری تقریب میں قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہونے کی بجائے ٹانگ پر ٹانگ رکھے بتا رہے ہیں کہ میں یہاں کا مالک ہوں۔تقریب میں موجود سینکڑوں افراد قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہیں جبکہ اسسٹنٹ کمشنر بے حسی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوفے پر بیٹھا رہا۔ بھارت سمیت بہت سے ممالک میں قومی ترانے کے احترام میں کھڑا نہ ہونے پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں اور ہر تقریب سے پہلے قومی ترانہ پڑھنا یا اس کی دھن بجانا لازم ہوتا ہے۔جبکہ یہاں معمولی اسسٹنٹ کمشنر خدا ئی فوجدار اور حاکم بنے ہوئے ہیں۔تمام طرح کی قانون شکنیوں اور غفلت کے باوجود عہدے،الائونسز اور پروٹوکول انجوائے کرتے ہیں۔ نئے نویلے اسسٹنٹ کمشنرز ،اے ڈی سی آر اور پولیس سروس کے اے ایس پی اور ایس پی لیول کے جونئیر بچے بھی خود کو ماورائے قانون مخلوق سمجھتے ہیں۔پنجاب کے تین اے ڈی سی آر کی کمائی کا یہ عالم ہے کہ ان کو خود نہیں معلوم کہ انکی دولت کا تخمینہ کتنے سو کروڑ ہوچکا۔پرانے افسران میںدیانت ، ملک کے لیے کام کرنے کا جذبہ اور مروت و لحاظ ہوتا تھا جب کہ نئے افسران کی اکثریت کا ایمانداری ،دید لحاظ اور اخلاقی اقدار سے دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔مقام شرم ہے کہ اے سی اور اے ڈی سی آر لینڈ مافیا کے ہرکارے بن کر سرکاری زمینوں پر قبضے کروارہے ہیں۔ جس ملک میں اکثریتی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہو وہاں سرکاری افسران نے چار چار سرکاری گاڑیوں اور جوانوں کی بڑی تعداد کو اپنے عزیزواقارب کی خدمت پر مامور کیا ہوتا ہے۔کچھ ایس ایس پیز کو جانتا ہوں۔ ان کے ان پڑھ ،آوارہ اور نکمے بھائی سرکاری جیپوں اور پولیس ڈالوں میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔افسران کے بیوی بچے بھی وسیع و عریض بنگلوں میں پْرتعیش زندگی گزارتے ہیں، مہنگی ترین لگژری گاڑیوں میں فراٹے بھرتے ہیں۔فارن سروس کے کچھ افسران کا صرف ایک ہی ایجنڈا نظر آتا ہے کہ پورے خاندان کو یورپین ممالک کی نیشنیلٹی دلوانی ہے۔ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ اور ایف بی آر میں کچھ’’ہنر مند افسران‘‘ٹیکس چوری کے نت نئے طریقے ایجاد کرتے نظر آتے ہیں۔ اضافی ٹیکس کا جعلی نوٹس بھیج کر بلیک میل کرنا اور پھر ان سے رشوت لے کر ان کا اصل ٹیکس بھی گول کر دینا تقریباً ایک روایت بن چکی ہے۔ ڈی آئی جی صاحبان سنگین غلاف ورزیوں اور ماورائے عدالت انکائونٹر کی وجہ سے آئے روز کانسٹیبل سے لیکر انسپکٹر ز تک پولیس فورس کے جوانوں اور افسران کو نوکریوں سے فارغ کرتے رہتے ہیں۔کچھ دنوں یا مہینوں میں وہ واپس نوکری پرنئی پوسٹنگ انجوائے کررہے ہوتے ہیں۔ چند ڈی آئی جیز نے نوکری سے معطلی اور برخاستگی کو کمائی کا ذریعہ بھی بنا رکھا ہے کہ سرکاری نوکری کی بحالی کیلئے تگڑی رقم مل جاتی ہے۔ایف آئی اے کی لاقانونیت اور لوٹ مار کو دیکھتے ہوئے پی ایس پی افسران اللہ کی رحمت محسوس ہوتے ہیں کیوں کہ ایف آئی اے کے جونئیر افسران جہاں عام افراد کو لوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے وہیں اینٹی منی لانڈرنگ والوں نے سرکاری افسران کو بھی بلیک میل کرنے کی لوٹ سیل لگائی ہوئی ہے۔اینٹی ہیومن ٹریفکنگ تو ہمیشہ سے ہی کمائی کا اڈا ہے لیکن آج کل اینٹی منی لانڈرنگ خاص طور پر لاہور سرکل کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے جہاں پر تاجروں اور سرکاری افسران کو نوٹسز بھیج کر ہراساں کیا جاتا ہے اور کلین چٹ دینے کے من مانے ریٹ چل رہے ہیں۔ سرکاری ملازمت اور سول سروس کی تباہی و بربادی اور بے توقیری کی یہی وجہ ہے کہ یہاں پر سب کے کنسیپٹ کلئیر ہیں کہ ایک دفعہ سرکاری نوکری مل گئی تو پھر چاہے جتنی مرضی انکوائیریاں،معطلیاں اور برخاستگیاں ہوں انہوں نے بحال ہو کہ پہلے سے بھی زیادہ دیدہ دلیری اور ٹھاٹ باٹ کے ساتھ دونوں ہاتھوں اور جھولیاں بھر کر مال بنانا ہے۔ آرمی کی بطور ادارہ عزت و وقار اور کامیابی کی وجوہات میں سب سے اہم احتساب اور میرٹ ہے۔آرمی میں سخت محنت سے کمیشن کا امتحان پاس کرنے والے افسران کو سول افسران کی طرح ’’عمر پٹہ‘‘ نہیں مل جاتا بلکہ آرمی میں ایک منظم میرٹ اور چیک سسٹم کے تحت قریباً80سے 90 فیصد کمیشنڈ افسران کو بطور میجر ، لیفٹیننٹ کرنل اور فل کرنل ریٹائرڈ کردیا جاتا ہے، صرف 8 فیصد کے قریب بریگیڈئیر جبکہ سارا کیرئیر نیندیں حرام کرنے والے بمشکل 2 پرسنٹ جرنیل بننے کا خواب شرمندہ تعبیر کر پاتے ہیں جبکہ وائلیشن یا کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر سپاہی سے جرنیل تک کوبراہ راست گھر بھیج دیا جاتا ہے اور واپسی کا کوئی رستہ نہیں ہوتا۔سول سروس میں بھی یہی طریقہ رائج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سب کو معلوم ہو کہ محنت،ایمانداری اور کارگردگی دکھانے والوں کیلئے ہی آگے بڑھنے کے مواقع ہیں۔ بیوروکریسی کو چاہئے اپنی کمیونٹی کے افسران کی ہر جائز و ناجائز معاملے میں حمایت کی بجائے اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو پہچانیں جنہوں نے سرکاری طاقت کے بے جا استعمال،اپنی حدود اور اختیارات سے تجاوزکرکے نہ صرف سرکاری وسائل کو’’مال مفت دل بے رحم‘‘ کی طرح لوٹا ہے بلکہ بیوروکریسی کی مجموعی ساکھ کو بھی بری طرح خراب کیا ہے۔ عوام کی امیدوں کا مرکز اور انصاف کی واحد امید چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست ہے کہ خود کو قانون کی پکڑ سے دور اور احتساب سے بالا تر مخلوق سمجھنے والی بیوروکریسی کا بھی احتساب کیا جائے تاکہ انصاف کا بول بالا ہوسکے۔